معیشت کا بنیادوں سے احیا ضروری

   

بھوپیش بھاگیل

شہری ماحولیات کا بھی احیا ہونا چاہئے، ان مشکل اوقات میں اوسط طبقہ کے لوگ روزانہ کئی جانیں ضائع کررہے ہیں جبکہ اس آفت سے نمٹنے کی کوششیں 10 مہینوں سے جاری ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے بموجب معیشت انحطاط کا شکار ہوچکی ہے اور بیروزگاری اور واپس وطن جانے والے مزدوروں کی تعداد میں اضافہ تلخ حقیقت ہے۔
علاوہ ازیں زرعی شعبہ کا بحران ہے اور مرکزی حکومت سماجی شعبہ میں اور فلاح و بہبود پر خرچ کی جانے والی رقموں میں تخفیف کررہی ہے۔ اس کے برخلاف حصص مارکٹ کبھی اتنے عروج پر نہیں تھا جتنا کے اب ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صورتحال میں کوئی نہ کوئی کمی پائی جاتی ہے۔ وباء کی وجہ سے پہلے ہی سے موجود عدم مساوات کو اور بھی زیادہ کردیا ہے۔ چھتیس گڑھ کی کانگریسی حکومت کو یقین ہے کہ کوئی بھی معیشت اس وقت تک خوشحال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دیہی غریب عوام کی اکثریت کو نظرانداز نہ کرے۔ جمہوریت معیشت کے انحطاط کے نتیجہ میں نشانہ بنی ہوئی ہے۔ وہی عوام جنہیں بنیادی سطح سے معیشت کے احیا کا خیال بھی نہیں ہے، اس میں اضافہ کررہے ہیں۔ ایک اہم دلیل یہ ہے کہ ہم دوسری ایشیائی معیشتوں کی طرح ہے جو برآمد پر منحصر ہیں۔ صارفین پر مبنی ایک معاشی ڈھانچہ تیار کیا ہے اور امکان ہے کہ ہمیں جلد ہی اس کا احساس ہو جائے گا۔ پوری آبادی میں صارفین پر مبنی معیشت کی اہمیت کا احساس پیدا ہو جائے گا لیکن پیداوار میں فروغ کی بھی ضرورت ہے۔ یعنی تعلیمی اور صحت کے معیار انتہائی ناقص ہیں اور انہیں بہتر بنایا جانا چاہئے۔
اس کے لئے ہمیں گزشتہ 15 سال میں بند کئے ہوئے اسکولوں کو دوبارہ کھولنا ہوگا۔ یہ اسکولس نکسلائٹس سے متاثرہ علاقوں میں بند کردیئے گئے تھے۔ ناقص تغذیہ کو دور کرنے کی چیف منسٹر سپوشان ابھیان کا آئندہ تین سال کے اندر احیا کیا جانا چاہئے۔ تقریباً 67 ہزار بچے ناقص تغذیہ کا شکار ہیں جبکہ بچوں کی جملہ تعداد 5 لاکھ ہے۔ اگر ہم حفظان صحت تک ہر ایک کی رسائی چاہتے ہیں تو ہمیں ہاٹ بازار کلینک کھولنے ہوں گے۔ اس کے لئے خصوصی مہم بستر کے علاقہ میں چلائی جائے تو ملیریا سے متاثرہ افراد کی تعداد کم ہوکر 65 فیصد صرف ایک سال کی مدت میں ہو جائے گی۔
وباء کے دوران ہمیں احساس ہوا کہ قبائیلیوں کو بااختیار بنانا چاہئے اور اس کے لئے قریب میں دستیاب وسائل تک رسائی حاصل ہونی چاہئے۔ جنگل کی پیداوار اقل ترین امدادی قیمت پر حکومت کی جانب سے حاصل کی گئی، اس سے تقریباً 7 تا 52 افراد کو فائدہ حاصل ہوا اور اس پروگرام کا مقصد بھی یہی تھا۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار طمانیت اسکیم (ایم این آر ای جی ایس) ایک بار پھر حیرت انگیز اسکیم ثابت ہوئی جس سے نقل مقام کرنے والے مزدوروں کو فائدہ پہنچا جو لاک ڈاون کے درمیان وطن واپس آئے تھے، انہیں اپنی بقاء کے لئے اور اشیائے ضروریہ کی خریدی میں صرف کرنے کے لئے کچھ نقد رقم بھی دی گئی۔ دیہی معیشت کے استحکام کے لئے ہمیں شہری ماحولیات کو بھی بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ دیہی معیشت مستحکم ہو سکے۔ ہمیں چاہئے کہ نروا، گروا، گھوروا باری جیسے خصوصی پروگرام بنایا گیا تاکہ ماحولیات اور معیشت ہر جگہ یکساں سطح پر فراہم کی جاسکے۔ دریاوں کے نظام کو بہتر بنایا گیا۔ سطح اور زیر زمین پانی کی دستیابی کے ساتھ آوارہ مویشیوں اور دیہی کچرے کے انتظام کے ذریعہ ماحولیات میں تنوع پیدا کیا گیا۔ قبل ازیں کسان اس کچرے کو جلا دیا کرتے تھے۔
جنگل کے پانی کو محفوظ کیا گیا اور جنگلات میں پھل دار درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ شہری پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور اس کیلئے جمہوری طور پر رسائی حاصل کی جائے تاکہ یہ صرف دولتمند اور وسائل رکھنے والوں تک محدود نہ ہوسکے۔ غریبوں کو نقد رقم پر مبنی معیشت سے مانوس کرنے کیلئے نمایاں طور پر نقد رقم کی ضرورت ہوگی تاکہ غریب افراد کی ٹھوس آمدنی کو یقینی بنایا جاسکے اور مزدوروں کی مدد کرتے ہوئے اس کام کو پیداواری بنایا جاسکے۔ ایک کانگریسی قائد راہول گاندھی نے بالکل درست طور پر اقل ترین یقینی آمدنی جو انصاف پر مبنی ہو وکالت کی ہے۔ ان مشکل اوقات میں جبکہ معیشت دیہی نظام میں بھاری سرمایہ کاری نہیں کرسکتی موجودہ ملک گیر کسانوں کے احتجاج سے ہماری رہنمائی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ احتجاجی مظاہرہ سے ظاہر ہوتا ہیکہ بازار پر شکاری قوتوں کا غلبہ ہے جس کی وجہ سے معیشت اور جمہوریت میں انتشار پیدا ہو رہا ہے اور عوام کا استحصال کیا جارہا ہے۔
انحطاط کے اثرات سے بچ جانے والے چھتیس گڑھ کے عوام کو ایک نیا نمونہ پیش کرنا چاہئے تاکہ اس بات کو ثابت کیا جاسکے کہ مہاتما گاندھی نے ترقی کے لئے جس کام کی وکالت کی تھی یعنی دیہاتوں اور غریبوں کو بااختیار بنانا کتنا زیادہ صحیح تھا اسی طریقہ سے خود بہ خود پورا ملک مستحکم بن جائے گا۔ ہم اسکول میں پڑتے آئے ہیں کہ ’’دربل عوام ظالم راجا‘‘ (اگر ملک کا راجا کمزور ہوتو عوام بھی کمزور ہو جاتے ہیں) یہ دور ایسا نہیں ہے جبکہ حکومت اصلاحات کی آڑ لے کر پسپائی اختیار کرے۔