مغل بادشاہ اورنگ زیب ؒ نے منادر کا تحفظ کیا،مسمار نہیں

   

آڈرے ٹرشکے
ہندواور جین منادر کو اورنگ زیبؒ کی سلطنت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان مذہبی اداروں کو اورنگ زیبؒ نے خاص تحفظ عطا کیا تھا۔ عمومی طور پر اورنگ زیبؒ نے ان کی بھلائی کیلئے جدوجہد کی۔ اسی طرح مغل نقطہ نظر سے چند مخصوص منادر یا پھر ان کے مددگاروں کے جنہوں نے اورنگ زیبؒ کی نیک نیتی کے خلاف کام کیا۔ بادشاہ اورنگ زیبؒ نے اپنے دورِ حکومت میں بعض منادر کو ڈھائے اور تحقیر کیا۔
آج کے اس نئے دور میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اورنگ زیب نے چند مخصوص منادر کو ہندوؤں کی تحقیر کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مقدس علامتوں کو محض انتقام کی خاطر نقصان پہنچایا۔ ان خیالات ؍ آراء کی جڑیں نوآبادیاتی دور سے تعلق رکھتی ہیں جہاں برطانوی سامراج کی معاندانہ پالیسی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے تحت اس زہریلی سوچ کو ہندوؤں کے دل میں راسخ کیا۔
آج کے اس ٹیکنالوجی کے دَور میں کئی ایسی ویب سائیٹس ہیں جو ہندوؤں پر اورنگ زیب کی (فرضی) داستان ظلم سناتی ہیں جس میں سوائے مفروضوں، جھوٹ سچ کو زہریلے انداز میں ملایا جاتا ہے اور جس کے ذریعہ نسلی منافرت کو ہوا دی جاتی ہے۔

تاہم یہاں یہ بات رکھنے کی ہے۔ اورنگ زیبؒ پر منادر کو مسمار کرنے کے الزامات میں اور حقیقت میں بڑا تفاوت ہے کہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے۔ واضح طور پر اورنگ زیبؒ نے کئی منادر کو اپنی سلطنت میں قائم کروائے تاہم چند ایک مسمار بھی کروائے۔ یہ عدم تناسب جس میں زائد تعمیر منادر اور چند درجن کی مسماری معنویت رکھتی ہے۔ اگر اورنگ زیب کے ویژن کو یک رخی ایجنڈہ رکھنے کے ہندوؤں کے مقامات عبادت کو ڈھا دیں۔ ہمیں تاریخی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس الزام کا جائزہ لینا چاہئے اور یہ بھی کہ وہ (اورنگ زیبؒ) منادر کی حفاظت کو مسماری پر زیادہ ترجیح دیتے تھے۔

بادشاہ اورنگ زیبؒ اسلامی قوانین پر عمل کرتے تھے کہ جس کے تحت وہ غیرمسلم مذہبی قائدین اور اداروں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ ہندوستان کے مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں کو ذمّی یعنی تحفظ و سلامتی کا حامل شخص جو اسلامی قانون کے تحت آتا ہے جو آٹھ صدی سے رائج ہے۔ اس قانون (ذمّی) کی رو سے وہ کئی حقوق اور ریاستی دفاع کا بھی حق رکھتا ہے۔
تاہم نوٹ کے قابل یہ بات ہے کہ اورنگ زیبؒ نے اسلامی قوانین کی حد سے زیادہ پاسداری کرتے ہوئے انہیں (ہندو اور جین) مزید کئی حقوق عطا کئے، جس کی وجہ سے ان کے مکمل دور میں انصاف رسانی ممکن ہوئی۔
اورنگ زیبؒ کے انصاف میں سب سے پہلے آزادی انتخاب مذہب کے بشمول دیگر چیزیں شامل تھیں جس کی وجہ سے انہوں (اورنگ زیبؒ) نے ہندوؤں کے مقامات عبادت کی بطورِ خاص تحفظ کو یقینی بنایا۔

عمومی طور پر مغلیہ حکمرانوں نے کئی معاملات میں زبردست چھوٹ دی، چونکا دینے کی حد تک چھوٹ دی جبکہ یوروپین سلاطین نے اپنے مطلق العنان اقدامات کے ذریعہ اپنے مذہبی اقدار اور میلانات کو رائج کیا، تاہم ریاستی حکومت کی دلچسپی کی وجہ سے ہندوستان کی مغلیہ حکومت نے بہت زیادہ مذہبی آزادی عطا کی اور اورنگ زیبؒ نے حد سے زیادہ مذہبی آزادی کا غلط استعمال کرنے والے اِداروں اور قائدین پر قدغن لگائی جو لافانی ہونے کا ڈھونگ رچانا چاہتے تھے، اگر مذکورہ برائیاں کسی میں موجود نہ ہوتیں تو اورنگ زیبؒ بذاتِ خود تمام ہندوستانی شہریوں کے ساتھ نہایت ہی اچھا سلوک کرتے تھے اور تمام منادر کی سلامتی و تحفظ کا خاص خیال رکھتے تھے۔
اورنگ زیبؒ نے رانا راج سنگھ کو جو1969ء میں میوار کا ہندو راجپوت بادشاہ تھا، شاہی حکم نامہ بھیجا کہ اعلیٰ ظرف بادشاہ خدا ؍ بھگوان کا سایہ ہوتے ہیں، وہ دراصل خدا کی عدالت کے ستون ہوتے ہیں۔ ان پر فرض ہے کہ وہ مختلف مذاہب و اَدیان کو مکمل امن و امان فراہم کریں اور وہ باعزت و باوقار طریقہ سے زندگی گذاریں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ) ان کے کسی بھی معاملہ میں (چاہے وہ مذہب ہی کا کیوں نہ ہو) قطعی مداخلت نہ کریں۔ اورنگ زیبؒ ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’بادشاہ‘‘ روئے زمین پر خدا کا ’’پرتو‘‘ ہوتے ہیں، اس لئے انہیں مختلف مذاہب میں امن کو برقرار رکھنا چاہئے۔ انہوں (اورنگ زیبؒ) نے مزید کہا کہ بادشاہ کو ضرور بہ ضرور غیرمتعصب ہونا چاہئے اور اس کا ذہن تعصب سے بالکل خالی ہونا چاہئے۔
اورنگ زیبؒ نے اس بات پر بھی خاص توجہ دی کہ ان کی پچھلی پشتوں نے اپنے دور حکومت میں جو غلطیاں، دھاندلیاں اور اقربا پروری کی تھی، اُن سب کی اصلاح اور ضرورت پڑنے پر بیخ کنی کی۔ اورنگ زیبؒ کی نظر میں تعلیمات اسلام اور مغل رواج اور وسعت نظری نے ہندوؤں کے منادر کو تحفظ فراہم کرنے پر اکسایا۔ یہی نہیں ہندوؤں کے مقدس مقامات اور ان کے مذہبی آدمیوں کو وقعت دینے پر مجبور کیا۔
اورنگ زیبؒ کے پاس 49 سال تھے جس کے تحت انہوں نے بحیثیت بادشاہ وعدے کئے تھے کہ وہ ان کی سلطنت میں مذہبی رواداری کو فروغ دیں گے جس کیلئے انہوں نے مضبوط اور پراعتماد آغاز کیا۔
اس سلسلے میں اورنگ زیبؒ نے ایک شاہی فرمان جاری کیا کہ بنارس کے مغلیہ حکمران اپنے عہدیداروں کو سختی سے پابند کریں کہ وہ وہاں کے مقامی منادر کے معاملات میں قطعی مداخلت نہ کریں۔ اواخر 1659ء میں قدیم منادر کے پجاریوں کو جو بنارس سے تعلق رکھتے تھے، ان کو ستانے کی اطلاعات جب اورنگ زیبؒ کو پہنچیں، اورنگ زیبؒ نے اپنے عہدیداروں کو فوری طور پر ایک حکم نامہ (فرمان) جاری کیا کہ ’’تمہاری ذمہ داری ہے کہ تمہارے ماتحتین کسی بھی برہمن یا ہندو کو غیرقانونی طور پر ہراساں نہ کریں تاکہ وہ بہ اطمینان قلب مملکت میں رہتے ہوئے اپنی عبادات کرسکیں۔ اورنگ زیبؒ کے دور کی پالیسی مکمل طور پر یہ تھی کہ ہندوؤں اور ان کی مقامات عبادت و اِداروں کی فلاح و بہبود جاری رہے اور ان کے مذہبی قائدین مملکت میں سکون محسوس کریں۔
اس سلسلے میں مغلیہ بادشاہ اورنگ زیب نے عہدیداروں کو درجنوں فرامین جاری کئے کہ منادر کے معاملات میں وہ غیرضروری مداخلت نہ کریں۔ علاوہ ازیں ہندو طبقہ کو مفت اراضی فراہم کی اور ان کے مذہبی پیشواؤں کو وظائف جاری کئے۔
اورنگ زیبؒ کی تخت نشینی کے نویں سال میں گوہاٹی کے اومانند مندر کو ایک فرمان جاری کیا کہ جس کے تحت انہوں (اورنگ زیبؒ) نے اراضی فراہم کرنے کی توثیق کی اور ساتھ ہی ٹیکس لینے کی بھی اجازت فراہم کی۔ بعدازاں سال 1680ء میں اورنگ زیبؒ نے اپنے ایک فرمان کے ذریعہ یہ حکم دیا کہ گنگا کنارے رہنے والے بھگونت گوسائن کو ہراسانی سے محفوظ رکھیں۔
اسی طرح اورنگ زیب نے جین مذہب والوں اور ان کے اداروں کے لئے بھی قابل قبول پالیسیاں نافذ کیں۔ بعدازاں بادشاہ اکبر کی پالیسی کو اپناتے ہوئے تمام جین مذاہب کی مذہبی مقدس مقامات شعرنجیہ، گرنار اور ماونٹ ابو میں اواخر 1650ء میں بڑی بڑی اراضیات فراہم کیں ۔ علاوہ ازیں ’’لال وجئے‘‘ جو جین (Monk) تھا۔ ریٹنگ ہاؤس (Upashraya) میں تھا۔ اواخر 1703ء میں اورنگ زیب نے احکامات جاری کئے کہ جنا چندرا سوری کو جوکہ ایک جین مت قائد تھا، ہراسانی سے محفوظ رکھا جائے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں ورنا کولار جین میں ان الفاظ میں ستائش کی گئی۔ اورنگ زیب کا دور ایک بہادر اور (عقل مند) طاقتور بادشاہ کا دور تھا۔ (مردانو اور مہابلی اور نگاشاہی نرندا)
یہ اقتباسات (بہ اجازت مصنف و پبلیشر) ’’اورنگ زیب: دی مین اینڈ دی مائتھ‘‘سے لیا گیا ہے جس کے مصنف آڈرے ٹرشکے، وائکنگ، پنگوئن رنیڈم ہاؤز انڈیا ہیں۔٭