ملائیشیا میں سیاسی اتھل پتھل

   

شفیق باپ کی دعاؤں سے آج ہوں محروم
کبھی میں اس کی محبت کے سائبان میں تھا
ملائیشیا میں سیاسی اتھل پتھل
مسلم ممالک میں سیاسی اتھل پتھل کے واقعات تشویشناک ہیں ۔ عالمی سطح پر مخالف اسلام اور مخالف مسلمان سوچ کو نفرت انگیز طریقہ سے آگے بڑھانے والی طاقتوں کو ان کے مقاصد میں کامیابی مل رہی ہے ۔ ملائیشیا میں بھی سیاسی کمزوریوں کے باعث وزیراعظم مہاتر محمد نے استعفیٰ دیا تھا اب ان کی جگہ سابق وزیر داخلہ محی الدین یسین کو ملائیشیا کا وزیراعظم مقرر کیا ۔ انہوں نے اتوار کو اپنا حلف لیا ہے ۔ ان کے تقرر کے خلاف ملائیشیا میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں کیوں کہ وہ مالے طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور اسی طبقہ کو فروغ دینے کی آرزو رکھتے ہیں ۔ انہیں متنازعہ لیڈر بھی کہا جاتا ہے ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد محی الدین یسین کی پارٹی یونائٹیڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن دوبارہ اقتدار میں آگئی ہے ۔ انہیں ملائیشیا کی نسلی مالے مسلم اکثریت کے غلبہ والی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے ۔ ملائیشیا میں اقلیتوں کی آبادی بھی پائی جاتی ہے ۔ محی الدین یسین کے وزیراعظم بن جانے سے ملائیشیا کی اقلیتوں کو مسائل کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہے ۔ مہاتر محمد کے استعفیٰ کے بعد ملائیشیا میں سیاسی دباؤ کا سلسلہ شروع ہوا ۔ نتیجہ میں دوبارہ وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالنے مہاتر محمد کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں ۔ 94 سالہ مہاتر محمد نے اپنے نامزد جانشین انور ابراہیم کے بغیر سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کی تھی لیکن ملائیشیا کے شاہ سلطان احمد نے محی الدین یسین کو وزیراعظم کی ذمہ داری حوالے کردی ۔ مہاتر محمد کو یونائٹیڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن سے معاہدے سے اس لیے انکار تھا کیوں کہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم نجیب رزاق سمیت کئی قائدین کے خلاف کرپشن کے مقدمات چل رہے تھے ۔ اس پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ہی مہاتر محمد نے بدفعلی کے الزام میں جیل کی سزا کاٹنے والے انور ابراہیم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لیکن داخلی رسہ کشی اور سیاسی دباؤ کے باعث ملائیشیا کا اقتدار ایک تجربہ کار ، سلجھے ہوئے اور مدبر سیاستداں سے نکل کر محی الدین یسین کے پاس چلا گیا ۔ مسلم ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی ان ملکوں کا داخلی معاملہ ہے لیکن جس طریقہ سے حالات پیدا کیے جارہے ہیں ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر جو بھی ملک عالمی طاقتور ملکوں کے مفادات کے مغائر بات کرے گا اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ملائیشیا میں بھی بیرونی طاقتوں نے اپنا رول ادا کیا ہوگا کیوں کہ مہاتر محمد ایک عالمی مسلم فورم بنانے پر زور دے رہے تھے تاکہ ساری دنیا میں مسلمانوں اور مسلم ممالک پر ہونے والی تنقیدوں اور الزامات کو غلط ثابت کرنے کی مہم چلانا چاہتے تھے ، مسلم دشمن طاقتوں یا اسلام کے خلاف نفرت جنونیوں کو مزہ چکھانا چاہتے تھے ۔ ملائیشیا میں مہاتر محمد نے 1981 تا 2003 کے درمیان بھی وزیراعظم کی حیثیت سے خدمت انجام دی ہے لیکن بعد ازاں ان کی حکومت اور ان کے سیاسی کیرئیر کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن ان کے مخالفین کو ناکامی ہوئی ۔ اس کے باوجود ملائیشیا کے کئی اہم سیاسی قائدین نے مہاتر محمد کو ہی ملائیشیا کی قیادت دینے کی اپیل کی تھی لیکن مسلم دنیا میں کسی غیر جانبدار اور سمجھدار سلجھے ہوئے مدیر سیاستداں کو اقتدار سے دور رکھ کر غیر مسلم طاقتیں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ کورونا وائرس سے ملائیشیا کی معیشت جھکولے کھا رہی ہے ۔ ایسے میں اقتدار کی تبدیلی کے عمل کو موخر کیا جاسکتا تھا اور مہاتر محمد خود بھی اس وائرس سے بچنے کے احتیاطی اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا تھا لیکن ان کے خلاف سازش تیار کرنے والوں نے انہیں اقتدار سے استعفیٰ دینے کے لیے اس قدر مجبور کیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو کندھوں سے اتار دیا ۔ مہاتر محمد 2018 میں وزیراعظم نجیب رزاق کو ناکام بناکر اقتدار حاصل کیا تھا ۔ مسلم ممالک میں داخلی طور پر سیاسی رسہ کشی کو ہوا دینے والی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر ایک ملک کے ماحول کو خراب کرتے ہیں ۔ ملائیشیا کے معاملہ میں بھی ایسا ہی عمل کیا گیا ہے ۔ مہاتر محمد نے حال ہی میں ہندوستان کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کی بھی مخالفت کی تھی جس کے بعد مودی حکومت نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے ملائیشیا سے خوردنی تیل پام آئیل کی درآمد روک دی تھی ۔ اسی طرح مہاتر محمد کے خلاف اندر ہی اندر سازشوں کو ہوا دے کر اقتدار سے دور رہنے کے لیے مجبور کیا گیا ۔ اب محی الدین یسین 72 سالہ کی قیادت میں ملائیشیا کے اندر سیاسی استحکام پیدا ہونے کی امید کم ہوگئی ہے ۔ آنے والے دنوں میں اس ملک کو بھی داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔۔