ملت اسلامیہ کو کئی چیالنجس کا سامنا ، پرسنل لاء بورڈ کو غیر اہم قرار دینے کی سازش

   

نوجوانوں میں داعیانہ کردار پیدا کرنے کی مساعی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا صحافیوں سے خطاب
حیدرآباد۔8۔جون۔(سیاست نیوز) مسلم پرسنل لاء بورڈ اصلاح معاشرہ اور تحفظ شریعت کے جلسوں اور تربیتی اجتماعات کے ذریعہ امت مسلمہ کے نوجوانوں میں داعیانہ کردار پیداکرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اس میں مزید بہتری لانے کے اقدامات کئے جائیں گے۔ ملت اسلامیہ کو اس ملک میں کئی چیالنجس کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے بورڈ اپنے طور پر رہبری کرتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی کرتا رہے گا۔ فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد چنندہ صحافیوں سے کی گئی خصوصی ملاقات کے دوران ان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ان خیالا ت کا اظہار کیا ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ملک میں بین مذہبی شادیوں کے سلسلہ میں موجود قانون کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بین مذہبی شادیوں کے لئے موجود اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے شادیاں ہورہی ہیں لیکن ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہاہے ۔ انہو ںنے کہا کہ بین مذہبی شادیاں دیر پا ثابت نہیں ہوتیں اور نہ ہی پائیدار ہوتی ہیں اسی لئے اس طرح کی شادیوں کو روکنے کے لئے شعوراجاگر کیا جانا چاہئے ۔ ہندو مذہب میں کی جانے والی شادیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہندو مذہب کے ماننے والوں کی جانب سے اپنی ذات میں شادی کو ترجیح دی جاتی ہے اور ان کی ترجیحات مختلف ہیں لیکن بعض شر پسندہندوتواتنظیموں سے تعلق رکھنے والے عناصر بین مذہبی شادیوں کے فروغ اور مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو درپیش چیالنجس میں اہم چیالنج کے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ ملک میں موجود عبادتگاہوں کے تحفظ کے متعلق موجود قانون تحفظ مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کو بچانا ایک اہم چیالنج ہے کیونکہ اس قانون کے تحت ہی ملک میں موجود مذہبی مقامات کو 15اگسٹ 1947 کے مطابق برقرار رکھے جانے کی گنجائش ہے اور اگر اس ایکٹ کو برخواست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں ملک بھر میں کسی بھی عبادت گاہ کو نشانہ بنائے جانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ انہو ںنے بتایا کہ گیان واپی معاملہ کے علاوہ دیگر معاملات کو جس انداز میں چھیڑا جارہا ہے وہ دراصل پلیس آف ورشپ ایکٹ1991کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ملک میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو منقسم کرنے کی متعدد کوششوں میں ناکامی کے بعد اب بورڈ کو غیر اہم قرار دینے کی منظم سازش کی جارہی ہے جبکہ بورڈ کی جانب سے مسلم پرسنل بورڈ اپنے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ انہوں نے بورڈ کو ہندستانی مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بورڈ میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی نمائندہ شخصیات موجود ہیں ۔ مسلکی اختلافات کے متعلق کئے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ 1972 کے بعد سے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے اکابرین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اب ہندستان میں مسلکی اختلافات اس قدر شدید نہیں رہے بلکہ ہر مکتب فکر کے ذمہ داران مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے حل اور شریعت کے تحفظ کے لئے کی جانے والی کوششوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔صدر مسلم پرسنل لا بورڈ نے یکساں سیول کوڈ معاملہ میں دریافت کرنے پر کہا کہ یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کی دیگر مذہبی اکائیاں بھی یکساں سیول کوڈ کے نفاذ سے متاثر ہوں گی ، اسی لیے مرکزی حکومت کو اس متنازعہ فیصلہ اور قانون سے باز رہنا چاہئے ۔ م