ملک میں جذبہ انسانیت مضبوط

   

رام پنیانی
ملک میں جس وقت کورونا وائرس کا بحران پیدا ہوا اس خطرناک بحران سے نمٹنے کے لئے ایسا لگا کہ کافی کوششیں کی گئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کورونا وباء سے صحیح طور پر نمٹنے میں حکومت ناکام رہی۔ اس دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس عالمی وباء کو ہندوستان میں ایک مخصوص طبقہ یا کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیااور اب بھی کیا جارہا ہے۔ نفرت کے ان سوداگروں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے ٹی وی کا طاقتور میڈیم یا ذریعہ استعمال کیا اور ساتھ ہی سوشل میڈیا کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ سوشل میڈیا کے نتیجہ میں نفرت کے ان سوداگروں نے جھوٹی خبریں پھیلانے کے معاملہ میں بھی شدت اختیار کی اور مذہبی اقلیت کے خلاف ان جھوٹی خبروں کے نتیجہ میں نفرت بڑی تیزی سے پھیلنے لگی۔ اس طرح کی کیفیت یا رجحان سے ایسا لگتا ہے کہ جہاں تک مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے درمیان دوستی و ہم آہنگی کا سوال ہے وہ رخصت ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ملک میں چند ایسے واقعات پیش آئے جن کے بارے میں جان کر ہمیں نہ صرف خوشی حاصل ہوئی بلکہ یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ اب بھی ہندوستان میں انسانیت باقی ہے اور لوگ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ ان واقعات میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے آگے بڑھتے ہوئے مشکل کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کی۔
لاک ڈاون کے دوران دلوں کو چھونے والے اور ذہنوں کو جھنجھوڑنے والے اس قسم کے واقعات میں امرت اور فاروق کی کہانی بہت زیادہ مشہور ہوئی۔ یہ دونوں مزدور ہیں اور گجرات کے سورت سے اترپردیش سفر کررہے تھے۔ اس سفر کے دوران راستے میں امرت بیمار ہوگیا اور اس کے ساتھ سفر کررہے زیادہ تر لوگوں نے درمیانی شب کے وقت اسے ٹرک سے اتر جانے کے لئے کہا اور جب وہ ٹرک سے اترنے پر مجبور ہوا تو وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کا دوست فاروق بھی تھا۔ فاروق نے جب یہ دیکھا کہ اس کے دوست کو صرف بیمار ہو جانے کے باعث ٹرک سے اتارا جارہا ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ اترپڑا اور اپنے دوست امرت کو اپنے گود میں لئے مدد کے لئے چیخنے چلانے اور پکارنے لگا۔ وہ ذار و قطار رو رہا تھا۔ اس کے آنسووں نے دوسرے لوگوں کو متوجہ کیا اور وہاں ایک امبولینس بیمار امرت کو اسپتال منتقل کرنے کے لئے پہنچ گئی۔
دہلی کی تہاڑ جیل میں ہندو قیدیوں نے مسلم قیدیوں کے ساتھ روزوں کا اہتمام کیا۔ جبکہ پونے کی مسجد (اعظم کیمپس) اور منی پور میں واقع ایک چرچ کورنٹائن میں تبدیل کردیئے گئے۔ ایک اور پیارے واقعہ میں مسلم لڑکی نے ایک ہندو گھرانے میں پناہ لی جہاں میزبانوں نے اپنی مسلم مہمان کے لئے درمیانی شب میں اٹھ کر سحری تیار کی۔ اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے۔ جو بھی واقعات پیش کئے گئے وہ ان واقعات ایک چھوٹا سا حصہ ہیں کیونکہ اکثر واقعات لوگوں کے علم میں نہیں آئے یا پھر ان کی اطلاع نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ سب سے پہلے میڈیا نے کورونا وائرس کو ایک مخصوص مذہب سے جوڑتے ہوئے فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے کا کام کیا۔ اس نے نت نئی اصطلاحات متعارف کروائیں جیسے کورونا بم، کورونا جہاد وغیرہ وغیرہ۔
ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ ہر کوئی ہندو اور مسلمانوں کے باہمی اعتماد کو توڑنے والی ان کوششوں کو مکمل طور پر کامیاب سمجھنے لگا تھا لیکن نفرت کے سوداگروں کو کئی مقامات پر منہ کی کھانی پڑی۔ فرقہ پرستوں نے اپنے سیاسی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لئے نفرت کی نہ صرف مینیوفیکچرنگ کی بلکہ اس کا پروپگنڈہ بھی کیا۔ تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود ہماری جدوجہد آزادی کے دوران تقویت پہنچائی گئی، اخوت و محبت نے ہندوستانیوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ صدیوں قدیم دوستی اور محبت کے بندھن میں اب بھی بندھے رہیں گے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ مذہبی قوم پرستوں کے باعث اس جذبہ اخوت و ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچا اور جذبات مجروح ہوئے۔
یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ہندوستان کی تہذیب فطرتاً اور موروثی طور پر ہم آہنگی اور تنوع پر مبنی ہے۔ قرون وسطی کے دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس دور میں سب سے زیادہ لوگوں کو الگ تھلگ رکھا گیا۔ کئی ایسے نسل پرست نظریہ ساز ہیں جو اس دور کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہندووں کو سب سے زیادہ متاثر کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھکتی روایات اور اس سے متعلق ادب کے پنپنے کے دور میں ہندوستانی زبانوں کو عروج حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ فارسی زبان جو اکثر و بیشتر بادشاہوں کے درمیان میں بولی جاتی تھی اس کا رابطہ اودھی سے ہوا اور پھر اردو کی شکل میں ایک میٹھی زبان وجود میں آئی اور یہ زبان اردو خالص ہندوستانی ہے۔ یہ وہی دور تھا جس میں شری رام چندر جی کی کہانی گوسوامی تلسی داس نے تحریر کی تھی۔ تلسی داس اپنی خود نوشت سوانح حیات کویتاوالی میں لکھتے ہیں کہ وہ مساجد میں سویا کرتے تھے۔ جہاں تک ادب کا سوال ہے غیر معمولی مسلم شاعروں نے ہندو بھگوانوں کی شان میں یا ان کی تعریف میں حیرت انگیز شاعری کی ہے۔ اس سلسلہ میں رحیم اور راس خان کے کلام کو یاد کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے شری کرشنا کی تعریف میں لکھے تھے۔ ہماری غذائی عادتیں، لباس کی عادتیں اور سماجی زندگی ان دو بڑے مذاہب کے اجزاء سے مل کر بنی ہیں۔ جبکہ عیسائیت بھی ہندوستانی زندگی کے ایک مختلف پہلو کی شکل میں اپنی کرنیں بکھیرتی رہی ۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ مسلمانوں نے بھکتی سنت جیسے کبیر اور دوسرے کئی سنتوں سے عقیدت رکھی جبکہ ہندووں نے صوفی سنتوں کی درگاہوں پر حاضر ہونے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح کے واقعات اور مناظر واضح طور پر آپ ہندی فلمس میں دیکھ سکتے ہیں۔ آج ساری دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں نے ہندو دیوتاوں کی تعریف میں کئی غیر معمولی مذہبی نغمیں تیار کئے۔ خود میرا پسندیدہ بھجن ’’من ترپت ہری درشن‘‘ کو کسی ہندو نے نہیں لکھا بلکہ یہ شکیل بدایونی کا لکھا ہوا بھجن ہے اور اسے موسیقار اعظم نوشاد علی نے کمپوز کیا، جبکہ افسانوی گلوکار محمد رفیع نے اپنی آواز سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ محمد رفیع نے کئی ہندو مذہبی نغمیں بڑے خوب گائے ہیں۔
جدوجہد آزادی کے دوران انگریزوں، مسلم اور ہندو فرقہ پرستوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے باوجود تمام مذاہب کے ماننے والوں نے متحدہ طور پر آزادی کی لڑائی لڑی۔ اس معاملہ میں کئی ادبی شخصیتوں نے ہندوستان کی متنوع تہذیب اور مذاہب کے درمیان دوستی و محبت کے اٹوٹ بندھن کو بہترین الفاظ کی شکل دی ہے۔ ہندو ۔ مسلم اتحاد کا سلسلہ کورونا وائرس کے دوران بھی جاری ہے حالانکہ فرقہ پرستوں نے اسے اس وباء کے دوران بھی تباہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مذکورہ واقعات نے یہ بتادیا ہے کہ ہندوستانی تہذیب ایک متنوع تہذیب ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔