ملک میں حکمرانی کی ابتر حالت

   

راج دیپ سردیسائی
حالیہ عرصہ کے دوران ایک ویڈیو زبردست وائرل ہوا جس سے اس بات کا صحیح صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں حکمرانی کی کیا حالت ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا کہ چند پینٹر اور مزدور گجرات کے موربی میں واقع سیول ہاسپٹل کو رنگ و روغن کررہے ہیں، فرش بچھا رہے ہیں، نئے پلنگ اور بستر ڈال رہے ہیں اور یہ سب کچھ وزیراعظم نریندر مودی کے دورے سے چند گھنٹوں قبل کیا جارہا ہے۔ اس ویڈیو سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کے سرکاری دواخانوں کی کس قدر بری حالت ہے۔ وہاں کے در و دیوار شکستگی کا اظہار کررہی ہیں۔ دواخانہ میں بیڈس اور صاف ستھرے بستروں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ موربی سانحہ کے بارے میں آپ سب جانتے ہیں جو صرف اور صرف انتظامیہ سے لے کر کنٹراکٹر کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ تھا جس میں زائد از 140 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ 50 سے زائد تو بچے مہلوکین میں شامل تھے جس طرح رنگ و روغن کے ذریعہ دواخانہ کی شکستگی اور بوسیدگی کو چھپایا گیا، کیا اپنے عزیز و اقارب کی موت پر غم سے نڈھال لوگوں کے رنج و الم کو کسی پینٹ یا اس کے اکسٹرا کوٹ کے ذریعہ چھپایا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! مہلوکین کے درد و الم کو دنیا کے کسی بھی پینٹ سے نہیں چھپایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کم کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی گجرات میں فی الوقت انتخابی سیزن ہے اور گجرات ماڈل کی چمک سارے ملک کو دکھانی ہے، اس کیلئے سرکاری دواخانہ کا شاید انتخاب کیا گیا اور مقامی انتظامیہ نے چند گھنٹوں میں اس کی حالت بدل کر رکھ دی جس کا مقصد وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھ میڈیا نمائندوں کو یہ تاثر دینا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن یہ ایسے ہی تھا جیسے گہرے زخموں کو لوگوں کی نظروں سے بچایا جائے۔ ویسے بھی آج کل ہم چمک دمک کی دنیا میں جی رہے ہیں اور تصویرکشی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ سردست ’’جو دکھتا ہے، وہ بکتا ہے‘‘ والا معاملہ ہے۔
ایک اور واقعہ پر غور کیجئے۔ ہم بات کررہے ہیں۔ سنت سنگ (مذہبی اجتماع) کی جو خودساختہ مذہبی رہنما گرمیت رام رحیم کی ، وہ ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ ہیں، ان کے ست سنگ میں انتہائی اہم شخصیتیں شرکت کررہی ہیں۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ گرمیت رام رحیم کے ست سنگ میں ارکان اسمبلی، وزراء اور دوسرے اہم سیاست داں شریک تھے۔ آپ کو یہ بتادیں کہ ڈیرہ سربراہ کو عصمت ریزی اور قتل مقدمہ میں خاطی قرار دیا گیا اور وہ 40 دنوں کیلئے پیرول پر ہیں۔ انہیں پیرول پر رہا کرنے کے وقت پر غور کیجئے۔ انہیں ایسے وقت رہا کیا گیا جب ہریانہ کے بعد اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات اور ہماچل پردیش کے انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ ہریانہ کے بعض اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی آچکے ہیں (ہریانہ کے حلقہ آدم پور سے بی جے پی نے کامیابی حاصل کی)۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہریانہ اور ہماچل پردیش میں گرمیت رام رحیم کے معتقدین کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ جو ویڈیوز منظر عام پر آئیں، ان میں ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ہماچل پردیش سے تعلق رکھنے والے بی جے پی وزیر خاطی قرار دیئے گئے اور عصمت ریزی و قتل کے الزام میں سزائے قید بھگت رہے گرمیت رام رحیم سے آشیرواد حاصل کررہے ہیں۔ آخر یہ کیا ہے؟ ریپ اور قتل کے مجرم کے گناہوں اور اس کے جرائم پر پردہ ڈالنا نہیں؟ہاں! حالیہ عرصہ کے دوران منظر عام پر آئے ایک اور ویڈیو کو یاد کیجئے جس میں 2002ء گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی اور اس کے ارکان خاندان بشمول 3 سالہ بیٹی کے قاتلوں کی جیل سے باہر آنے پر نہ صرف گلپوشی کی گئی بلکہ انہیں مٹھائیاں تک کھلائی گئی ، ان کے پاؤں تک چھوئے گئے اور وشوا ہندو پریشد کے چند ارکان کی جانب سے کئے گئے اس عمل کو سارے ملک نے دیکھا۔ ان زانیوں اور قاتلوں کی سزائے عمر قید معاف کرکے انہیں رہا کردیا گیا۔ سپریم کورٹ میں گجرات کی ریاستی حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا، اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ سی بی آئی اور ممبئی کی خصوصی عدالت نے ان خاطیوں کی قبل از وقت رہائی کی شدید مخالفت کی۔ یہاں پر بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خاطیوں کی سزائے ایسے وقت معاف کی گئیں جب گجرات انتخابی موڈ میں تھا۔ اب تو وہاں انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ ہندو ووٹوں کے حصول کی جدوجہد ایسا لگتا ہے کہ بڑی سخت ہوگئی کیونکہ ہندوتوا اور ہندو ووٹ کی ایک اور دعویدار سیاسی پارٹی منظر عام پر آئی ہے۔ دوسری طرف مغربی دہلی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرویش ورما کا بھی ایک ویڈیو منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے ایک ہجوم پر زور دیا کہ وہ ایک مخصوص کمیونٹی کا بائیکاٹ کرے اور اسے سبق سکھائیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کا نام لئے بغیر یہ اپیل کی تھی۔ان کے خطاب میں یہ واضح تھا کہ آخر ہندوؤں کا دشمن کون ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پرویش ورما نے ایک مخصوص کمیونٹی کے سماجی بائیکاٹ کی جو اپیل کی وہ اشتعال انگیز تقاریر و بیانات کے زمرہ میں آتی ہے۔ اسے بلاشبہ نفرت پر مبنی بیان کہا جاسکتا ہے اور ان کے خطاب کا مقصد ووٹ بینک کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ دہلی میں بھی بہت جلد بلدی انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ان کیلئے دہلی کے بلدی انتخابات وقار کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان تمام ویڈیوز کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اخلاقی و سیاسی بحران نے ہمارے ملک کے جمہوری سیٹ اَپ کو ہضم کرلیا ہے اور جو لوگ اقتدار میں ہے، جو اتھارٹی ہیں، ان میں جوابدہی کا فقدان ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال موربی کیبل برج ہے۔ موربی کے مقامی انتظامیہ کے عہدیدار یہ کیسے نہیں جانتے کہ 140 سال سے زائد قدیم کیبل برج تزئین نو اور مرتب کے بعد عوام کیلئے کھولا جارہا ہے۔ یہ عجیب بلکہ مضحکہ خیز بات ہے کہ حکام کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مذکورہ برج عوام کیلئے کھولا جانے والا تھا۔ان عہدیداروں نے اپنی مجرمانہ غفلت کا اعتراف کرنے کے بجائے ’’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق پل پر حد سے زیادہ لوگوں کے جمع ہوجانے کو اس کے انہدام کی اہم وجہ قرار دیا۔ وہ لوگ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ برج پر سکیورٹی کا فقدان تھا اور ان کا یہ طرز عمل اپنے فرض سے غفلت ہی ہے۔ اسی طرح حکومت ہریانہ یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ کی پیرول پر رہائی سے متعلق ناواقف ہے یا پھر بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی اور ان کی سزائیں معاف کئے جانے پر مرکزی وزارت داخلہ کیسے خاموش ہے حالانکہ ان زانیوں اور قاتلوں کی رہائی کو خود وزارت داخلہ نے ہری جھنڈی دکھائی ہے۔ دوسری طرف پرویش ورما کے کیس میں بعض رپورٹس کے مطابق بی جے پی قیادت ان کے بیان سے ناخوش ہے لیکن باقاعدہ، ان کی کوئی سرزنش نہیں کی گئی۔ ان تمام واقعات سے سرکاری اداروں کی تباہی اور مختلف سطحوں پر حکومت کی ناکافی یا خسارہ کے اشارے ملتے ہیں اور اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ بلدی انتظامیہ میں کرپشن نقطہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ اور موربی پولیس کے ساتھ ساتھ بلدی حکام کی بنیادی سیفٹی کی نگرانی میں ناکامی ایک تلخ حقیقت ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ملک میں سیاسی و سماجی اور ادارہ جاتی سطح پر جو اخلاقی گراوٹ دیکھی گئی، اس کی تازہ ترین مثال ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ کو پیرول پر رہائی کے باوجود سنت سنگ کی اجازت کا دیا جانا ہے۔ اس سے ہمارے ملک کے فوجداری نظام میں پائے جانے والے کھوکھلے پن کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ ملک کے قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آپ بلقیس بانو ریپ کیس اور اس کے ارکان خاندان کے قتل کے خاطیوں کو معاف کرکے رہا تو کردیتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جانبدارانہ سیاست کے ذریعہ قانونی اقدار کو کس طرح تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ دہلی کیس میں خاطیوں کے خلاف کارروائی کے معاملے میں دہلی پولیس کے کردار سے بھی پتہ چلتا ہیکہ کیسے دہلی پولیس فورس نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے ۔ جہدکار عمر خالد نے دو سال جیل میں گذار دیئے، اس کے باوجود ان کی ضمانت کی مخالفت کی جائے گی۔ جبکہ بی جے پی ایم پی کو چھونے کی کوئی ہمت بھی نہیں کرتا۔