ملک میں نئی سیاسی صف بندیاں

   

تجھ سے بچھڑ کے ہم پہ یہ عقدہ کھلا کہ ہم
ہر سانس لے رہے ہیں مسلسل عذاب میں
آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل ملک میں از سر نو سیاسی صف بندیوں کے آثار واضح ہوگئے ہیں۔ جس طرح سے بی جے پی کی جانب سے تمام حربے اختیار کرتے ہوئے سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سارے ملک پر عیاں ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے جو انڈیا اتحاد تشکیل دیا تھا اس کو توڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی یہ کوششیں کامیاب بھی ہونے لگی ہیں۔ بی جے پی نے اس بار پارلیمانی انتخابات کیلئے اب کی بار 400 پار کا نعرہ دیا ہے ۔ حالانکہ یہ نعرہ پورا ہونا آسان نہیں ہے لیکن بی جے پی اس کیلئے اپنا جال بچھانے میںمصروف ہوگئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اس کی کوششیں کامیاب ہوتی بھی نظر آ رہی ہیں۔ جس وقت سے اپوزیشن جماعتوں کا انڈیا اتحاد تشکیل دیا گیا تھا اسی وقت سے اس اتحاد میں دراڑیں پیدا کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے غلط فہمیاں پیدا کروائی گئیں۔ اس کے علاوہ دوسرے حربے بھی اختیار کئے گئے ۔ اتحادی جماعتوں میںا یک دوسرے کے تعلق سے اندیشوں کو فروغ دیا گیا ۔شبہات پیدا کئے گئے اور جو اصل مقصد اتحاد میں انتشار پیدا کرنے کا تھا وہ پورا ہونا شروع ہوا ۔ انڈیا اتحاد کی بات کرنے والے چیف منسٹر بہار نتیش کمار خود بھی اس اتحاد سے دور ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بہار میں مہا گٹھ بندھن کو خیرباد کہہ دیا ہے اور دوبارہ نریندر مودی کے ساتھ جا ملے ہیں۔ اسی طرح مہاراشٹرا میںشیوسینا ادھو ٹھاکرے گروپ میں انتشار پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ مختلف قائدین کو توڑا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی این سی پی میں پھوٹ کروادی گئی ۔ اجیت پوار کو علیحدہ کرلیا گیا اور اب تک بھی جو قائدین شرد پوار یا ادھو ٹھاکرے کے ساتھ تھے انہیں بھی یکے بعد دیگرے منحرف کیا جا رہا ہے اور ان کی تائید و حمایت بھی حاصل کی جانے لگی ہے ۔ یہ سارا کچھ بی جے پی کے توسیع پسندانہ عزائم کا حصہ ہی ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ بی جے پی کے جال میں پھنسنے والے قائدین یا جماعتوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا ہے اور وہ اس میں پھنستے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے چند دن قبل سابق نائب و زیر اعظم ایل کے اڈوانی کو بھارت رتن کا اعلان کرتے ہوئے ہندوتوا ووٹوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ آج انہوں نے چودھری چرن سنگھ اور پی وی نرسمہا راؤ کیلئے بھی بھارت رتن کا اعلان کردیا ۔ اسکے ذریعہ بھی سیاسی نشانے لگائے گئے ہیں۔ چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن کے اعلان کے بعد ان کے پورے اور راشٹریہ لوک دل کے لیڈر جئینت چودھری بھی اب بی جے پی کی گود میںجا بیٹھنے تیار ہوگئے ہیں۔ وہ بھی نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کرچکے ہیں۔ اس کے ذریعہ اترپردیش جیسی اہم ریاست میں سیاسی کھیل کھیلا گیا ہے ۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو ایک طرح سے اترپردیش میں یکا و تنہا کردئے گئے ہیں اور کانگریس کے ساتھ ان کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے جئینت چودھری کی سماجوادی پارٹی اور انڈیا اتحاد سے علیحدگی کوئی چھوٹی بات ہرگز نہیںہوسکتی ۔ اترپردیش میں بی جے پی کیلئے بی ایس پی کی بھی بالواسطہ مدد حاصل رہے گی ۔ اسی طرح جنوب کی تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں رائے دہندوں پرا ثر انداز ہونے کیلئے پی وی نرسمہا راو کیلئے بھی بھارت رتن کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ بھی ایک سیاسی کھیل ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ جنوب میں بی جے پی کیلئے حالات سازگار نہیں ہیں اور وہ ممکنہ حد تک عوامی تائید حاصل کرنے سرگرم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تلگودیشم سے بھی بی جے پی کے اتحاد کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
اترپردیش ‘ بہار اور مہاراشٹرا جیسی بڑی ریاستوں میں بی جے پی اپوزیشن کو کمزور کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا چاہتی ہے اور اب تک اپنی کوششوں میں وہ کامیاب ہوئی ہے ۔ اب عوام اس کی کوششوں کو کس حد تک قبول کرتے ہیں اور اسے واقعی ووٹ ملتے ہیں یا نہیں یہ تو نتائج ہی سے پتہ چل سکتا ہے ۔ تاہم یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی اپنے اقتدار کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں نئی سیاسی صف بندیوں کو یقینی بنانے میں لگی ہے ۔ علاقائی اور اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج جس طرح دوسری جماعتوں کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے کل خود ان کا بھی نمبر آسکتا ہے اور وہ بی جے پی کا کوئی سیاسی مقابلہ کرنے کے موقف میں نہیں رہیں گے ۔ یہ بات جتنی جلد سمجھی جائے اتنا بہتر ہوسکتاہے ۔