ملک میں ڈکٹیٹر کی دوڑ اور عام انتخابات

   

پروفیسر اپوروا نند
ملک میں عام انتخابات 2024 کی دوڑ شروع ہوچکی ہے اور اس دوڑ میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی سب سے آگے دکھائی دیتی ہے۔ ویسے بھی انتخابی شیڈول کے اعلان سے پہلے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت سرکاری اخراجات پر انتخابی مہم چلا چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی انتخابی مہم کی اس ریس میں بہت پہلے ہی دوڑنا شروع کردیا تھا، اس کے برعکس اپوزیشن جماعتیں انتخابی شیڈول جاری کئے جانے کا انتظار کررہی تھیں۔ اگر ہم بات بی جے پی اور اپوزیشن کی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فی الوقت دولت طاقت کے لحاظ سے بی جے پی بہت زیادہ طاقتور مضبوط و مستحکم ہے ۔ اپوزیشن کے پاس پیسہ نہیں، اگر ہم ہندوستان کے موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو 2012 کی ایک مشہور فلم دی ڈکٹیٹر کا ایک منظر بار بار ہمارے ذہن میں گردش کرتا ہے، اس فلم کا جو مرکزی کردار ہے وہ ڈکٹیٹر ہے، ڈکٹیٹر 100 میٹر کی دوڑ میں حصہ لیتا ہے اور چونکہ وہ ڈکٹیٹر ہے اس لئے دوڑ کی شروعات کرنے والی جو پستول ہے وہ بھی اسی (ڈکٹیٹر) کے پاس ہے، ڈکٹیٹر پہلے دوڑنا شروع کرتا ہے پھر اس کے بعد پستول فائر کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے آپ کو سطور بالا میں بتایا ہے کہ وہ ڈکٹیٹر ہے اور پستول اس کے ہاتھ میں ہے وہ دوڑ میں حصہ لینے والے ایتھلیٹس کو ایک ایک کرکے گولی مارتا ہوا دوڑتا رہتا ہے۔ نتیجہ میں دوڑ میں صرف وہی باقی رہ جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوڑ کے مقابلہ میں دوڑکے آخری مقام پر کچھ لوگ فیتہ لے کر کھڑے ہوتے ہیں ڈکٹیٹر دوڑتا ہوا اس فیتہ کو پار کرلیتا ہے اور دوڑ کا مقابلہ جیت لیتا ہے۔ اسی طرح ڈکٹیٹر اپنے اہتمام کردہ اولمپکس میں نہ صرف دوڑ کے مقابلہ میں حصہ لیتا ہے بلکہ پستول بھی چلاکر دوڑ کے آغاز کا اعلان کرتا ہے۔ دوسرے ایتھلیٹس کو گولیاں مار کر نہ صرف دوڑ کے مقابلہ میں بلکہ دوسرے مقابلوں میں جملہ 14 میڈلس حاصل کرتا ہے۔ ہم آپ کو فلم ڈکٹیٹر کے اس منظر کے بارے میں اس لئے بتا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں 18 ویں لوک سبھا کے انتخابات کی تواریخ کا اعلان کردیا گیا۔ 7 مرحلوں میں یہ انتخابات ہوں گے 543 پارلیمانی نشستوں کے لئے 97.7 کروڑ رائے دہندے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی فلم ڈکٹیٹر کا یہ منظر بھی سوشل میڈیا پر کافی وائرل اور بہت زیادہ مقبول ہوگیا۔ سوشل میڈیاپر اس بارے میں دلچسپ تبصرے یا ریمارکس بھی کئے جارہے ہیں اکثر لوگ لکھ رہے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں فی الوقت ایسا ہی ہو رہا ہے، لوگوں کے اس طرح کے تبصرے کرنے کی وجہ بھی ہے وہ یوں ہی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ وہ دیکھ رہے ہیں مودی اور ان کی حکومت نے اپوزیشن کے خلاف کس طرح گھیرا تنگ کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بار بار یہ الزام دہرا رہی ہیں کہ مودی مت مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ انہیں ڈرا دھمکا رہی ہے بلیک میل حکوکررہی ہے۔ اب تو اپوزیشن جماعتیں کئی اہم اپوزیشن قائدین کی گرفتاریوں کو لے کر احتجاج بھی کررہی ہیں اور حکومت کے خلاف ’’تانا شاہی نہیں چلے گی، تانا شاہی نہیں چلے گی‘‘ جیسے نعرے بھی بلند کررہی ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کو اسی پر تانا شاہی نہیں کہا جائے گا لیکن موجودہ حالات میں اور خاص طور پر انتخابات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی حد تک ڈکٹیٹر کی دوڑ سے مماثل ہے۔ سارا ہندوستان جانتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت انتخابی دوڑ (انتخابی تواریخ کے اعلان سے پہلے ہی) سرکاری اخراجات پر بڑے پیمانے پر اپنی مہم کا آغاز کرچکی تھی۔ اس وقت حزب اختلاف انتخابی تواریخ کے اعلان کا انتظار کررہی تھی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا ملک میں انتخابات کی نگرانی و اہتمام کرنے والا ادارہ ہے۔ حکومت نے انتخابات سے قبل اس ادارے کے ارکان کے انتخاب کے اصول کو بھی تبدیل کردیا۔ الیکشن کمشنر ان کے تقررات کرنے والی تقررات کمیٹی میں پہلے وزیر اعظم، قائد اپوزیشن اور چیف جسٹس آف انڈیا شامل رہتے تھے لیکن مودی حکومت نے اس ضمن میں اصول و قواعد کو تبدیل کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا کو کمیٹی میں شامل کرنے کی گنجائش ہی ختم کردی جبکہ ان کی جگہ ایک مرکزی وزیر کو شامل کرنے کی گنجائش فراہم کی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکمراں جماعت اپنی مرضی و منشا کے مطابق کسی کو بھی الیکشن کمشنران مقرر کرسکتی ہے اور الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیداروں چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے دو الیکشن کمشنران کے انتخاب میں حکومت کی رائے سب سے اہم ہوگی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کھیل کے کسی مقابلہ میں شریک ٹیموں میں سے صرف ایک ٹیم کا کپتان ہی ایمپائر مقرر کرے ایسے میں اس کی غیرجانبداری کے بارے میں کہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے جس کپتان نے اس کا تقرر کیا ہے اسی کی ٹیم کے حق میں وہ فیصلہ دے گا۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ اپوزیشن قائدین کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں بلیک میل کئے جانے سے متعلق اپوزیشن کے الزامات کا سوال ہے، ہم سب نے دیکھا کہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو کیسے گرفتار کیا گیا۔ اس سے کم از کم ایک ماہ قبل جھارکھنڈ کے چیف منسٹر ہیمنت سورین کی گرفتاری عمل میں آئی۔ یہ اچھا ہوا کہ ہیمنت سورین نے عہدہ چیف منسٹری سے استعفے دے کر اپنی حکومت کو بچالیا ورنہ اس اتحادی حکومت کو گرانے کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ دہلی شراب اسکام کے بہانے عام آدمی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر اور چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو گرفتار کیاگیا۔ اس سے پہلے بھارت راشٹرا سمیتی تلنگانہ کے سربراہ و سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی دختر کے کویتا کو گرفتار کرکے تہاڑ جیل میں پہنچا دیا گیا۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے مزید تین اہم قائدین پہلے ہی سے جیل میں تھے جس میں سابق ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسوڈیہ، سابق وزیر صحت دہلی مسٹر سنیندر جین اور سنجے سنگھ ایم پی شامل ہیں۔ ان میں سے صرف سنجے سنگھ کو ضمانت پر رہا کیا گیا اور وہ بھی سپریم کورٹ کی مہربانی سے جیل سے باہر آئے۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار نہ رکھتے ہوئے سنجے سنگھ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے جیل سے باہر آتے ہی جس طرح کا خطاب کیا اس نے بی جے پی کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ آپ کو یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہائی کورٹ کے جس جج نے سنجے سنگھ ایم پی کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی اس نے چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی گرفتاری کو صحیح قرار دیا ہے۔ اچھا ہوا کہ جن دلائل کی بنیاد پر ہائی کورٹ نے سنجے سنگھ کی درخواست مسترد کی تھی سپریم کورٹ نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے سنجے سنگھ کی درخواست ضمانت منظور کی۔ یہاں ایک اور اہم بات بتانی ضروری ہیکہ ہائی کورٹ نے اروند کجریوال کو دہلی کا چیف منسٹر اور ایک اہم سیاستداں ہونے کے باعث کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے انکار کیا لیکن ان ہی جج صاحب نے ایک اور سیاستداں دلیپ رے کی سزا یہ کہتے ہوئے معطل کردی کہ وہ ایک اہم سیاستداں ہیں اور انہیں انتخابات میں حصہ لینا ہے حالانکہ دلیپ رے کو سزا ہوچکی تھی جبکہ اروند کجریوال کے معاملہ کی تفتیش ہنوز مکمل نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال جج صاحب کے اس کھلے عام تعصب و جانبداری کو سب نے نوٹ کیا، محسوس کیا۔ آپ اندازہ لگایئے کہ اپوزیشن قائدین کی گرفتاریوں سے انتخابی مہم پر اثر پڑنا لازمی ہے حد تو یہ ہیکہ سرکاری تحقیقاتی ایجنسیاں مختلف معاملوں میں اپوزشین جماعتوں کے بے شمار قائدین کو نوٹسوں پر نوٹس بھیج رہی ہیں جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہار ہی کے نہیں بلکہ ملک کے اہم اپوزیشن لیڈر و سابق چیف منسٹر لالو پرساد یادو کو ایک 25 سال قدیم کیس میں بی جے پی کی زیر اقتدار ریاست مدھیہ پردیش سے وارنٹ گرفتاری بھیجا گیا ہے۔ اس طرح کے تمام واقعات سے صاف صاف ظاہر ہو رہا ہیکہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیاں اہم اپوزیشن قائدین کو ان انتخابات میں کسی نہ کسی طرح الجھا کر رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنی ساری توانائیاں ان انتخابات میں صرف نہ کرسکیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو گرفتار کیا گیا اور پھر اس کے بعد انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے کانگریس کو 1800 کروڑ روپے کے واجبات ادا کرنے کی نوٹس روانہ کی حد تو یہ ہیکہ اس سے پہلے حکومت نے کانگریس کو آگاہ کئے بناء اس کے اکاؤنٹ سے 135 کروڑ روپے منہا کرلئے اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کانگریس کے تمام اکاؤنٹس منجمد کردیئے۔ کانگریس نے تو ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہیکہ عین انتخابات کے موقع پر اس کے کھاتے منجمد کئے تاکہ وہ انتخابی مہم نہ چلاسکے۔ ایسا لگتا ہیکہ اپوزیشن قائدین کے خلاف مرکزی ایجنسیوں خاص کر ای ڈی انکم ٹیکس اور سی بی آئی کی کارروائیوں سے خوف میں مبتلا ہوکر بے شمار اپوزیشن قائدین خود کو بچانے کی خاطر بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چیانلوں میں ایسی خبریں عام ہیں اس سلسلہ میں مہاراشٹرا کے سابق چیف منسٹر اور کانگریس کے اہم لیڈر اشوک چوہان، سابق ڈپٹی چیف منسٹر و این سی پی لیڈر اجیت پوار کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ ان دونوں کو خود وزیر اعظم نریندر مودی نے جیل بھیجنے کی دھمکیاں دی تھیں جس کا یہ اثر ہوا کہ آج دونوں بی جے پی کے حق میں ہیں اشوک چوہان تو باضابطہ بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بی جے پی میں کم از کم ایسے اہم 25 قائدین شامل ہوئے ہیں جن کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات چل رہے تھے جن میں سے بی جے پی میں شامل ہونے کے ساتھ ہی 23 قائدین کے خلاف مقدمات بند کردیئے گئے۔