ملک کے سنگین مسائل کا حل ضروریG-20 کی صدارت اہم نہیں

   

سیتا رام یچوری
جنرل سیکریٹری سی پی آئی( ایم)
وزیراعظم نریندر مودی G-20 صدارت کو لے کر کافی پرجوش ہیں۔ وہ ایسے محسوس کررہے ہیں کہ ان کی قیادت میں ہندوستان کو دنیا کی قیادت مل گئی ہے۔ G-20 کی صدارت ہندوستان کو ملنے پر انہوں نے ایک کُل جماعتی اجلاس طلب کیا اور اس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم نے بہت بڑا تیر مارا ہے حالانکہ G-20 کی صدارت باری باری اس گروپ کے ہر رکن ملک کو حاصل ہوتی ہے۔ بہرحال وزیراعظم کے طلب کردہ کُل جماعتی اجلاس میں سی پی آئی ایم کے جنرل سیکریٹری نے مودی جی اور ان کی حکومت کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ G-20 کی صدارت کا ملنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اندرون ملک بڑھتی فرقہ پرستی، بیروزگاری اور غربت کو کم کرنے اسے ختم کرنے کیلئے اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کو یہ بھی یاد دلایا کہ ملک میں خواتین، دلتوں، قبائیلیوں اور کمزور طبقات کے خلاف سماجی ناانصافی بڑھتی جارہی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد خطرناک سطح تک پہنچ چکا ہے۔ جمہوری اور شہری حقوق پامال کئے جارہے ہیں۔ حکومت سے اختلاف رائے اور ناراضگی کا اظہار کرنے والوں پر ملک دشمنی کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے۔ یہ ملک کیلئے ایک خطرناک رجحان ہے۔ ذیل میں سیتا رام یچوری کی تقریر من و عن پیش کی جارہی ہے:
وزیراعظم نریندر مودی کا یہ اعلان کہ ہندوستان کو ملی G-20 صدارت، عالمی احساس وحدت کو فروغ دینے کا کام کرے گی۔ صرف تبھی محسوس کی جاسکتی ہے جب بڑھتی فرقہ واریت اور معاشی گراوٹ جو ہندوستان میں گہری عدم مساوات پیدا کررہے ہیں، ان پر قابو پایا جائے۔(سی پی آئی۔ایم جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے پیر کی شام وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے طلب کردہ کُل جماعتی اجلاس کے دوران یہ خیال ظاہر کیا۔ مودی نے ہندوستان کو G-20 کی صدارت ملنے کے ضمن میں یہ کل جماعتی اجلاس بلایا تھا۔ مودی نے ’’ایک ارضی ، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ کے عنوان پر ملک کی سطح پر سیاسی مہم پروگرام کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ ہندوستان کو G-20 صدارت وحدت کے عالمی احساس کو فروغ دینے کیلئے کام کرے گی)
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ مذکورہ عنوان کا سماجی ، سیاسی اوراقتصادی دائرہ میں موجودہ ان خطرناک رجحانات کو درست کرنے اور آزادی، مساوات اور اخوت کے دستوری بنیادوں پر سختی سے عمل آوری کرنے سے تعین ہوگا جو ہمارے سکیولر عوامی جمہوریہ کے کردار کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔ یہ ایک ایسے معاشرہ اور سیاسی ساخت کی تخلیق پر منحصر ہے جو تمام کیلئے مساوات پر مبنی ہو کیونکہ ہندوستان کا آئین یا دستور بلالحاظ مذہب و ملت، ذات پات، رنگ و نسل یا صنف کے تمام شہریوں کو سماجی، سیاسی اور معاشی انصاف کی فراہمی کا احاطہ کرتا ہے۔ واسو دھیوا کٹم بکم کے نظریہ یا تصور کا معنی و مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یکسانیت نافذ کی جائے بلکہ یہ ایک عالمی خاندان کی پہچان ہے جہاں مساوات اور وقار کی بنیاد پر تمام تہذیبوں اور تہذیبی تنوع کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے اور سماجی تکثیریت (Social Pluralities) کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ہر ملک میں اس قسم کا عالمی خاندان مذکورہ نوعیت کے معاشروں کو قائم کرتا ہے۔آج ہمیں نفرت و تشدد کے خلاف چوکس ہونا چاہئے کیونکہ نفرت، دہشت اور تشدد کی شیطانی مہمات پر مبنی فرقہ وارانہ پولارائزیشن کی موجودہ خطرناک سطح کی بنیاد وزیراعظم کے اعلان کردہ اعلامیہ کی اصل کو تباہ کرتی ہے جبکہ فرقہ پرستی اقتصادی سست روی، بیروزگاری اور غربت کی بڑھتی سطح کے ساتھ عدم مساوات کے ایک اور مجموعہ کی تخلیق کررہی ہے۔ خواتین، دلتوں، قبائیلیوں اور کمزور طبقات کے خلاف سماجی ناانصافی بڑھتی جارہی ہے۔ جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کی دستوری ضمانتیں، اختلاف رائے اور اظہار ناراضگی کو ملک دشمن قرار دے کر سختی سے محدود کردی گئی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ G-20 کی صدارت ایک گھومتی ہوئی صدارت ہے جو رکن ممالک باری باری سے خودبخود دوسرے ملکوں کی میزبانی کرتے ہیں، اس کا ملکی معیشت یا سماجی، سیاسی صورتحال سے بہت کم تعلق ہے۔