ملک کے مسائل حکومت جان کر بھی انجان

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

اگر آپ کو ہندوستان کی موجودہ معاشی صورتحال پر ایک مضمون تحریر کرنے کیلئے مدعو کیا جاتا ہے تو آپ کے دو اہم ترین موضوعات کیا ہوں گے؟ ہمیں یقین ہے کہ بیشتر لوگ اُن موضوعات کا انتخاب کریں گے جو عوامی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کا عوام سے گہرا تعلق ہے۔
بیروزگاری اور مہنگائی
مرکزی وزارت فینانس ہر ماہ ایک معاشی جائزہ شائع کرتا ہے، میں نے نہیں سوچا تھا کہ 6 نوجوان و پرجوش ماہرین اقتصادیات کا ایک گروپ مرکزی وزارت فینانس کے کہنے پر ایسا جائزہ مضمون لکھا ہو جس میں شعوری طور پر لفظ بیروزگاری کے ساتھ ساتھ غذائی قلت، ناقص غذا، بھوک اور غربت جیسے الفاظ سے گریز کرے گا۔ (مجھے حیرت ہے کہ آیا ان کے کانوں میں اس بات کی سرگوشی کی گئی تھی کہ وزیراعظم یہ مضمون پڑھ سکتے ہیں) ماہرین اقتصادیات کا گروپ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال ، بیروزگاری، مہنگائی، ناقص غذا، بھوک و غربت کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ بیروزگاری، غذائی قلت، ناقص غذا کا سنگین مسئلہ، بھوک اور غربت کا خاتمہ، علمی فریضہ سے بڑی کوتاہی ہے۔
معاشی جائزہ آخر کیوں؟
جہاں تک مرکزی وزارت فینانس کی جانب سے ماہانہ اقتصادی جائزہ لینے کا سوال ہے۔ یہ ایک قابل قدر دستاویز ہوتی ہے۔ مجھے اس امر کی اُمید تھی کہ ستمبر 2022ء معاشی جائزہ (جو 22 اکتوبر 2022ء میں جاری کیا گیا) سال کے وسط میں جو موجودہ معاشی صورتحال ہے، اس پر روشنی ڈالے گا اور ساتھ ہی ہماری معیشت کی کمزوریوں کو دُور کرکے اسے استحکام بخشے گا اور یہ بتائے گا کہ آئندہ 6 سے 12 ماہ میں ہماری معیشت کیا موڑ لے گی اور کیا شکل اختیار کرے گی، اس کے علاوہ یہ معاشی جائزہ ان رکاوٹوں مشکلات و مسائل کی نشاندہی بھی کرے گا جس کا قومی معیشت کو سامنا ہوسکتا ہے اور عالمی معیشت کے مثبت رجحان کو اپنانے کا لائحہ عمل طئے کرے گا اور عالمی معیشت کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس بارے میں روشنی ڈالے گا۔ اگر دیکھا جائے تو ستمبر کا جو معاشی جائزہ ہے، وہ کوئی ضخیم جائزہ نہیں بلکہ صرف 35 صفحات پر مشتمل ہے جس میں گرافس، چارٹس اور تین صفحات پر مشتمل ڈیٹا کے ذریعہ ملک کی معیشت کا تجزیہ کیا گیا ہے، اس میں ان مسائل کو بہت چھیڑا گیا جن کا ملک اور قوم کو سامنا ہے۔ اس کا جو متن ہے اسے 6 حصوں میں تقسیم کیا گیا اور اختتامی کلمات اور نقطہ نظر کے ساتھ اسے ختم کیا گیا۔ ان حصوں میں حکومت کی تشویش اور نقطہ نظر کو پیش کیا گیا ہے جس میں (1) مالیاتی موقف (2) صنعت (3) خدمات (4) کریڈٹ ڈیمانڈ (5) افراط زر اور (6) خارجی شعبہ شامل ہے۔ اندازہ یہ لگایا گیا کہ بیروزگاری، غذائی قلت، بھوک اور غربت حکومت کے خدشات فکر و تشویش میں شامل نہیں ہیں ۔
خود شاباشی
ہمارے ملک میں چند برسوں سے یہی دیکھا جارہا ہے کہ حکومت خود کی پیٹھ تھپتھپانے لگی ہے۔ اگر معاشی جائزہ رپورٹ کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بآسانی پتہ چلتا ہے کہ رپورٹ کا لب و لہجہ خود شاباشی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خاص طور پر رپورٹ کے آخری جملہ میں حکومت کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ایسی صورتحال ہے جیسے کوئی سوئنگنگ (Swinging) حالات میں بیاٹنگ کررہے ہوں اور گیندوں کا بہت ہی ماہرانہ انداز میں سامنا کیا (ایسی پالیسی جس میں غلطیوں سے گریز کیا گیا) اور سوئنگنگ گیندوں کو ایسی ہی چھوڑ دینا ، اسی طرح اہم ہے جیسے ہم نے گیندوں کو اچھی طرح کھیلا ہے (پالیسی فیصلے لئے گئے) لیکن مذکورہ جائزہ رپورٹ کے مصنفین نے ان کمزوریوں کا حوالہ دینے سے گریز کیا یا ان گیندوں کے بارے میں کچھ بتانے سے گریز کیا جو تقریباً وکٹ لینے کا باعث بنے (مثال کے طور پر مصنفین نے ڈالر کے مقابل روپئے کی گرتی قدر) کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور ہر نتیجہ قارئین کو حقیقت سے بے خبر رکھنے کیلئے ایسے اخذ کیا گیا جیسے گیند کو سوئپ کیا جاتا ہے۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق آمدنی خوش کن ہے۔ سرمایہ اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مصارف کے معیار میں بہتری آئی ہے اور مالیاتی موقف صحت مندانہ ہے اور یہ اگست تک کی صورتحال ہے۔ ہاں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ حکومت جو قرض حاصل کررہی ہے، وہ عوامی اور سرکاری قرض میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔ صنعتوں کے بارے میں رپورٹ میں کئی ایک اشارے اور مثالیں دی گئیں جیسے پی ایم مینوفیکچرنگ ایس اینڈ پی بی ایس سی آئی انڈسٹریل میٹلس انڈکس عشاریہ برائے کاروباری جائزہ اور صنعتی پیداوار سے متعلق عشاریہ شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بحیثیت مجموعی تجارتی رجحانات میں بہتری آئی ہے۔ خدمات کے شعبہ سے متعلق جائزہ رپورٹ میں بین ریاستی تجارت و سیاحت، ہوٹل انڈسٹری، ایرپاسنجر ٹریفک، ٹرانسپورٹیشن اور رئیل اسٹیٹ کے بارے میں جوش و خروش دکھایا گیا۔ ساتھ ہی یہ پیش قیاسی کی گئی کہ رئیل اسٹیٹ شعبہ ترقی کی کلید ہے۔
کریڈٹ ڈیمانڈ
یہ بھی صحت مندانہ رفتار کے ساتھ نمو پا رہا ہے (سال بہ سال 16.4%) لیکن سخت ہوتی مالیاتی پالیسی اور سست معاشی نمو سے اس میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے لیکن جغرافیائی تبدیلیوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بچ رہی ہے۔ افراط زر کے بارے میں رپورٹ میں ایسا لگتا ہے کہ جانبدارانہ نقطہ نظر پیش کیا گیا جہاں تک خارجی شعبہ کا سوال ہے، جائزہ رپورٹ میں ملاجلا خود مبارکبادی کا رویہ اپنایا گیا۔ (یہ بتایا گیا کہ درآمدات مستحکم ہوئی ہیں) اگرچہ جائزہ جانبدارانہ اور خود شاباشی پر مبنی ہے، اس سے قطع نظر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دستاویزات اندرون چند ہفتہ ایک تاریخ ہوں گے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگا کہ جس دن مسٹر رشی سونک برطانیہ کے عہدہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے، اسی دن انہوں نے گہرے معاشی بحرانوں کا انتباہ دیا۔ یہاں تک کہ چینی صدر ژی جن پنگ نے چینی معیشت کو لچک دار قرار دیا ہے۔
یہاں اس بات کا تدکرہ ضروری ہے کہ UNDP اور آکسفورڈ HDI نے 17 اکتوبر 2022ء کو جاری اپنی رپورٹ میں تخمینہ لگایا ہے کہ ہندوستان میں سال 2020ء میں 228 ملین لوگ غریب تھے اور بھوک سے متعلق عالمی عشاریہ میں جملہ 121 ملکوں میں ہندوستان کا درجہ 107 ہے اور پچھلے 8 برسوں میں ہندوستان کے درجہ میں گراوٹ آگئی ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ 16.3% ہندوستانی ناقص غذا کا شکار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ہندوستانیوں کو موثر غذا نہیں مل پا رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 35.5% بچے ٹھٹھر رہے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح 8.02% ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اترپردیش اور ملک کے دوسرے مقامات پر دیکھا گیا کہ گریجویٹ بیروزگاروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ پچھلے ہفتہ (22 اکتوبر) کو مرکزی وزارت فینانس نے معاشی صورتحال کے بارے میں خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ تقاریب منانے کا وقت نہیں ہے، اطمینان کا وقت نہیں ہے، مجھے حیرت ہے کہ 22 اکتوبر کی صبح اور شام کے درمیان کیا تبدیل ہوگیا؟