بیشک ملی تنظیموں نے فساد زدگان کے کھانے اور قیام کا بندوبست کیاتھا‘ یقینا ان کے لئے مکانات تعمیرکرائے اوراشیاء خوردنی کی کمی نہیں ہونے دی‘ لیکن قانونی پہلو پر ایک بھی جماعت کھری نہیں اتری۔ علما
شاملی۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ورکرزہیں‘ وکلاء بھی ہیں اورحامیوں کا ہجوم ہے‘ پھر بھی ملی تنظیمیں اضلاع شاملی ومظفر نگر کے فسادات کے قصو وار کو سزدلانے میں پوری طرح ناکام رہی ہیں کہ ملزم بتدریج بری ہورہے ہیں‘
چنانچہ حال ہی میں عدلیہ سے کئی ملزم بری ہوئے ہیں اور اس سے پہلے بھی بری ہوئے ہیں۔پریس کو جاری بیان میں سرکردہ سماجی کارکن مولانا مظفر نے کہاکہ اس علاقے میں 2013میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے‘
اقلیتی فرقہ کے درجنوں لوگوں کی جانوں کا اتلاف ہوا تھا او رکروڑ وں روپئے کا مالی نقصان ہوا تھا کہ ان کے مکانوں کو نذر آتش کردیاگیاتھا ان لوگوں کو راتو ں رات مکانات کی چھتوں سے کود کر محفوظ مقامات پر پناہ لینی پڑی تھی‘
عین وقت پر کیرانہ اور کاندھلہ کے اسلامی مدارس نے ہزارہا لوگوں کے کھانے او رقیام کابندوبست کیاتھا۔ بعد میں مدد کے لئے ملی جماعتیں ائی تھیں‘ یقینا بڑی مدد کی کہ ان تنظیموں نے ان کے لئے مکانات تعمیر کرائے اور اشیاء خوردنی کی کمی نہیں ہونے دی۔
لیکن آہ قانونی پہلو پر ایک بھی جماعت کھری نہیں اتری‘ اب نام بنام کس کس کو بتائیں؟۔ اس سمت میں جوکام کرنے کا تھا وہ کسی نے کیاہی نہیں۔
انہوں نے کہاکہ اعلی حکام نے متاثرین کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے پولیس کی ٹیمیں تشکیل دیں۔
پولیس اہلکار فسادزدگان کے بیانات لینے ائے‘ناخواندہ لوگ جیسے بیان دے سکتے ہیں‘ محتاج بیان نہیں ہے‘
عین اسی وقت قصور واروں کی طرف سے پولیس تک رسائی حاصل کی گئی جبکہ متاثرین کی طرف سے درست رپورٹ لکھانے کے لئے کوئی آگے ایا ہی نہیں‘ چنانچہ ذیلی حکام نے من مرضی رپورٹ تیار کی۔
انھیں رپورٹوں کی بنیاد پر عدالت میں مقدمات کی سماعت ہوئی‘ موقع کے گواہ اوردوسرے ثبوت مہیا نہیں کرائے گئے توان ملزموں کو بری ہونا ہی تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب اس وقت کی سرکاری نے ایک جماعت کے ذمہ داران کو فساد زدگان کے نکاح کرانے اورہرجوڑے کو ایک لاکھ روپئے کا چیک دینے میں الجھا رکھاتھا۔
انہوں نے کہاکہ سرکاری طور پر مظلومین کی اشیاء خوردنی کے لئے تعاون کیاگیا‘ موسم سرما میں انھیں کمبل بھی دیے گئے اور ملی جماعتوں کی طرفس ے بھی اس تعلق سے بڑا تعاون کیاگیا۔ لیکن قانونی پہلو پر کسی نے توجہہ نہیں دی۔
پولیس والے جیسا عام معاملات میں کرتے ہیں کے ساز باز کرکے صحیح کو غلط اور غلط کودرست کردیاکرتے ہیں‘
ایسا ہی فساد زدگان کے بارے میں بھی کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملی جماعتوں کو اس پہلو پرخاطر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ متاثرین کے قیام وطعام کا بہتر بندوبست کرسکتی ہیں‘
جیسا کے کیابھی ہے تو قانونی سطح پر کیوں نہیں کرسکتیں؟۔ یقینا کرسکتی ہیں! توجہہ خاص کی ضرورت ہے۔ اب کیاہوسکتا ہے؟۔
اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری طرف یہاں پر دورہ پر ائے جامعہ درالسلام کے سربراہ مولانا جاوید ندوی نے کہاکہ ہماری بہت ادب کے ساتھ ملی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ تعاون کے ساتھ ساتھ قانونی پہلو پر بھی دھیان دیں۔
انہوں نے کہاکہ ماشاء اللہ جمعیتہ علماء نے پس زنداں پہنچے بے قصوروں کی رہائی کے لئے تاریخی اقدامات کیے ہیں جن کی تعریف کی جانی چاہئے۔
تاہم اسی کے ساتھ اگر جمعیتہ علماء ایسے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے بھی ایک قانونی سیل تشکیل دے گی تو یہ بڑی خدمت ہوگی۔
یہ ضلع اور قصباتی سطح پر ہو‘ ریاستی سیل کے ماتحت ہو اور ریاست ملکی سیل کے ماتحت ہوں‘ اس سیل کاکام یہ ہوکہ جہاں بھی کوئی ایسا معاملہ سامنے ائے تو اس کو دیکھے او رتھانہ میں جاکر رپورٹ کہیں آنا کونی کرے تو اعلی حکام سے بروقت رابطہ کرے‘
حکام نہ مانیں تو عدالت کے دروازے کھلے ہیں۔
مولانا جاوید ندوی کے ساتھ دورے پر ائے قاری مسیح الزماں نے کہاکہ ماشاء اللہ جمعیتہ علماء بہتر طریقے سے خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کام کوبھی اپنی خدمات میں شامل کرلیں۔
تو یہ بڑا کام ہوگا اور قصور واروں کو چھٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہاکہ ہماری معلومات کے مطابق اس پہلو پر ہنوز مطلوبہ طریقے سے توجہہ نہیں دی گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے معاملات کو مجلس عاملہ پیش کیاجائے او رمنظوری ملنے پر ملکی قانون کے دائرہ میں رہ کر جہد مسلسل سے کام لیاجائے۔