ممتا ۔ اکھیلیش ملاقات

   

میں تڑپ گیا قفس میں وہ گھڑی عجب گھڑی تھی
مجھے یاد آگیا جب وہ بہار کا زمانہ
ممتا ۔ اکھیلیش ملاقات
آئندہ پارلیمانی انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آت جا رہا ہے سیاسی سرگرمیوںمیں تیزی آتی جا رہی ہے ۔ مختلف جماعتیں جہاںا پنی عوام تک رسائی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں تووہیں حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے قائدین کو نشانہ بنانے کا عمل بھی تیز کردیا گیا ہے ۔ کہیں تلنگانہ میں کارروائی ہو رہی ہے تو دہلی میں بھی ڈپٹی چیف منسٹر کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ بہار میںآر جے ڈی قائدین کے خلاف دھاوے کئے جا رہے ہیں تو کانگریس لیڈر راہول گاندھی کے خلاف بھی مہم تیز کردی گئی ہے ۔ انہیں پارلیمنٹ میں اظہار خیال کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف ملک کو بیرون ملک رسواء کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن اتحاد کی کوششیں کہیںماند پڑتی نظر آرہی ہیں۔ راہول گاندھی کو نشانہ بنانے کا مقصد یہی ہوسکتا کہ انہیں عوامی مقبولیت حاصل کرنے سے روکا جائے اور انہیں اپوزیشن اتحاد کے لیڈر کے طور پر ابھرنے کا بھی موقع نہ دیا جائے ۔ حالانکہ خود کانگریس اور راہول گاندھی نے واضح کردیا ہے کہ وہ اپوزیشن اتحاد کے لیڈر نہیں ہیں لیکن کچھ جماعتوںمیں یہ اندیشے پیدا کرنے میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ راہول گاندھی اپوزیشن اتحاد کے لیڈر بن سکتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ترنمول کانگریس کی ممتا بنرجی اور سماجوادی پارٹی کے اکھیلیش یادو بھی راہول گاندھی اور کانگریس سے دوری برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔ کچھ جماعتیں چاہتی ہے کہ بی جے پی کے خلاف جو محاذ بنایا جائے وہ کانگریس کی قیادت میں بنے ۔ ان میں چیف منسٹر بہار نتیش کمار سب سے آگے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس اس اتحاد کی قیادت قبول کرے اور تمام سیاسی جماعتیں اس میں شامل ہوجائیں تاکہ بی جے پی کو شکست دی جاسکے ۔ تاہم ممتابنرجی اور اکھیلیش یادو کے علاوہ کے چندر شیکھر راو اور دوسرے قائدین ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کانگریس کے بغیر اتحاد تشکیل دیا جائے ۔ یہ اتحاد بی جے پی اور کانگریس دونوںہی سے یکساں دوری برقرار رکھے ۔ اس میں کچھ اور جماعتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ ان کا بھی یہی موقف ہوسکتا ہے ۔
ممتابنرجی نے تریپورہ اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی ناکامی کے بعد اعلان کردیا تھا کہ ان کی پارٹی لوک سبھا انتخابات میں تنہا مقابلہ کرے گی ۔ تاہم اب سماجوادی پارٹی لیڈر اکھیلیش یادو سے ان کی ملاقات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اب بھی مخالف کانگریس و مخالف بی جے پی محاذ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کوششوںمیںبی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راو اور اوڈیشہ کے چیف منسٹر نوین پٹنائک کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ کچھ جماعتیں اب بھی ایسی ہیں جو چاہتی ہیںکہ کانگریس کی قیادت میں مخالف بی جے پی اتحاد تشکیل دیا جائے ۔ تاہم بڑی علاقائی جماعتیں اس کیلئے تیار نہیں نظر آتیں ۔علاقائی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کا یہ اختلاف اپوزیشن کے کامل اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ حالانکہ شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) ‘ این سی پی ‘ ڈی ایم کے ‘ آر جے ڈی ‘ جے ڈی یو ‘ جے ایم ایم کے علاوہ اور بھی کچھ جماعتیں ہیں جو چاہتی ہیں کہ کانگریس پارٹی اپوزیشن اتحاد کا حصہ رہے ۔ ان جماعتوںمیں اپوزیشن اتحاد کی قیادت کے مسئلہ پر اختلاف ہوسکتا ہے لیکن کانگریس کی شمولیت پر یہ جماعتیں متفق ہیں۔ اب جبکہ کچھ بڑی علاقائی جماعتیں اس کیلئے تیار نہیںہیں تو یہ بات واضح ہوتی نظر آرہی ہے کہ اپوزیشن کی صفوںمیںاس طرح کے اتحاد کا امکان نہیں ہے جو نتیش کمار چاہتے ہیں۔ نتیش کمار نے جس طرح سے کانگریس کی قیادت میں محاذ کی بات کہی تھی اس سے ممتابنرجی اور اکھیلیش یادو متفق نہیں ہیں۔ کانگریس نے تاہم ابھی تک ان تمام معاملات میں اپنی جانب سے کوئی رائے ظاہر نہیں کی ہے ۔
ممتابنرجی ۔ اکھیلیش یادو ملاقات نے بی جے پی کیلئے جو امکانی مشکلات ہوسکتی تھیں ان کو کمزور کردیا ہے ۔ اگر اپوزیشن جماعتیں پوری طرح سے متحد ہونے میں ناکام ہوتی ہیں تو اس سے بی جے پی کو شکست دینے کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگرلوک سبھا انتخابات میں سہ رخی مقابلہ ہوتا ہے تو اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بی جے پی سب سے زیادہ طاقتور ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کو اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر ایک بار پھر غور کرنا چاہئے ۔ جو کچھ بھی فیصلہ ہو اس تک جلد پہونچنا چاہئے اور اگر مخالف بی جے پی دو محاذ بھی بنتے ہیں تو انہیں حکمت عملی اور اشتراک سے کام کرتے ہوئے اپنے منصوبوںکو قطعیت دینے کی ضرورت ہوگی ۔
اڈانی مسئلہ پر حکومت کی خاموشی
شئیر بازار میں الٹ پھیر سے متعلق اڈانی گروپ پر الزامات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس الٹ پھیر اور بدعنوانیوں میں نت نئے انکشافات بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اور بعض میڈیا گھرانوں کی جانب سے اس مسئلہ پر حکومت سے سوال کئے جا رہے ہیں۔ جو تشویش اور اندیشے لاحق ہوئے ہیں ان پر وضاحت طلب کی جا رہی ہے لیکن حکومت اس پر جواب دینے کو تیار نظر نہیںآتی ۔ حکومت کی جانب سے مسلسل خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اب تک جو انکشافات ہوئے ہیںاڈانی مسئلہ وہیں تک محدود نہیں ہے اور کئی ایسے پہلو ہیں جن کو جانچ اورتحقیقات کے ذریعہ منظر عام پر لایا جانا چاہئے ۔ ان میں بعض معاملات ملک کی دفاعی پیداوار سے متعلق کمپنیوںمیںسرماہے کاری سے متعلق بھی ہے ۔ کئی اداروں میں جو سرمایہ کاری کی گئی ہے وہ بے نامی بھی کہی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ اس معاملے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب دے ۔ جو حقائق ہیں ان کو منظر عام پر لانے سے گریز نہ کیا جائے ۔ ملک اور ملک کے عوام کے مفادات کو متاثر ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ جو انکشافات ہو رہے ہیں اگر وہ درست نہیں ہیں تو حکومت وضاحت کرتے ہوئے عوام کے شکوک و شبہات کو رفع بھی کرسکتی ہے ۔