منتخبہ حکومتوں کی عمدا ہتک

   

ملک میںسیاسی اختلافات کی وجہ سے جمہوری اور دستوری ر وایات سے انحراف کی روش عام ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خود مرکزی حکومت کی جانب سے ایسا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جس سے ملک میں عرصہ دراز سے چلی آرہی روایات کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ اس میں یہ خیال بھی نہیں رکھا جا رہا ہے کہ دستور اور قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ وفاقی اور جمہوری طرز حکمرانی کی دھجیاںاڑائی جا رہی ہیں۔ گورنرس کے تقرر کے ذریعہ مرکزی حکومت ریاستوں پر اپنے کنٹرول کو رائج کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں حکومتوں اور گورنرس کے مابین اختلافات عام ہوگئے ہیں۔ پہلے بھی یہ اختلافات ہوا کرتے تھے تاہم یہ اتنے عام نہیں تھے ۔ ایک دو مسائل پر اختلاف رائے ہوا کرتا تھا لیکن گورنر کی جانب سے ریاستی حکومت کا اور ریاستی حکومت کی جانب سے گورنر کا احترام کیا جاتا تھا ۔ گورنر بھی حقیقی معنوں میں ریاست کے سربراہ کا رول ادا کرتے ہوئے سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھا کرتے تھے ۔ اپنی دستوری اور قانونی ذمہ داریوں کی تکمیل ہی ان کا منشاء ہوا کرتی تھی ۔ تاہم حالیہ عرصہ میںمرکزی حکومت کی جانب سے گورنرس کو جس طرح سے ریاستی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس نے ساری روایت ہی بدل ڈالی ہے ۔ گورنرس اور ریاستی حکومتیں اب ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھنے لگی ہیں۔ ایک دوسرے پر کسی کو اعتماد نہیں رہا ۔ ہر فیصلے اور اقدام کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ملک میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں اس طرح کی مثالیں مل جاتی ہیں جہاں حکومت اور گورنر کے مابین باضابطہ ٹکراو ہوا ہے یا ہو رہا ہے ۔ ان میںدہلی ‘ تلنگانہ ‘ مغربی بنگال ‘ ٹاملناٹو ‘ کیرالا اور مہاراشٹرا و دیگر ریاستیں بھی شامل ہیں۔ گورنرس اور ریاستی حکومتوں کے مابین اختلافات کے دوران اب مرکزی حکومت نے بھی باضابطہ ریاستی منتخبہ حکومتوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے اوروہ راست گورنرس کوریاستی امور میںفریق بنانے لگی ہیں۔ گذشتہ دنوں رام نومی کے موقع پر ملک کے کچھ حصوں میں تشدد ہوا ۔ بہار اور بنگال میں مرکزی وزیر داخلہ نے راست گورنرس کو فون کیا ۔
بہار ہو یا مغربی بنگال ہو دونوں ہی ریاستوں میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی جمہوری حکومتیں موجود ہیں۔ ملک میں وفاقی اور جمہوری طرز حکمرانی کا جو ڈھانچہ ہے اس کے تقاضہ کے مطابق مرکزی وزیر داخلہ کو ان ریاستوں کے وزرائے داخلہ سے ‘ چیف منسٹروں سے یا پھر چیف سکریٹری سے صورتحال پر رپورٹ طلب کرنی چاہئے تھی ۔ ان سے فون پر بات کرنی چاہئے تھی تاہم دونوں ہی ریاستوں میں وزیر داخلہ نے عوامی منتخبہ جمہوری حکومتوں کو نظر انداز کردیا بلکہ عمدا ان کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی ہے اور گورنرس کو ریاستی امور میں فریق بنانے کی کوشش کی ہے اور ان سے حالیہ واقعات پر رپورٹ طلب کی ہے ۔ مرکزی حکومت کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے اور اس کے نتیجہ میں کچھ اپوزیشن جماعتوں کے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت گورنرس کے ذریعہ اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو نشانہ بنانا رہی ہے ۔ انہیں کمزور کرنا چاہتی ہے اور گورنر کے عہدہ کا سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گورنرس کو استعمال کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں خلل پیدا کیا جا رہا ہے اور ریاستوں کے انتظامی امور میں گورنر کی مداخلت کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ وفاقی طرز حکمرانی کے مغائر ہے اور چونکہ ریاستی حکومتیں عوام کے ووٹ سے جمہوری طرز پر منتخب ہوتی ہیں اس لئے انہیں کام کرنے سے روکنا بھی دست نہیں ہے ۔ انہیں عوام نے اپنے ووٹ سے منتخب کیا ہے اس لئے انہیں عوام کیلئے کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔
یقینی طورپر گورنر ریاست کے سربراہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک دستوری عہدہ ہے ۔ اس کا احترام مسلمہ ہے لیکن انتظامی امور حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کی برقراری ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ان معاملات میں گورنر کا کوئی رول نہیںہوتا ۔ صورتحال اگر انتہائی غیر معمولی ہوجائے تو گورنر اس پر اپنی رائے سے ضرور نواز سکتے ہیں لیکن راست ریاستی امور میں گورنر کی مداخلت درست نہیں ہے ۔ اس سے عوامی فیصلے کی نفی ہوتی ہے اور مرکزی حکومت ان ریاستوں میں یہی طریقہ اختیار کر رہی ہے جہاں اپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ مرکز کو اس طرح کی منفی حکمت عملی کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔