منی پور میں صدر راج نافذکرنے سےمودی حکومت کا گریز کیوں ؟

   

روش کمار
جب صبح صبح دارالحکومت میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے گھر کے باہر لوگ بیانرس اور پوسٹرس لیکر پہنچ جائیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ منی پور کے حالات انتہائی بے قابو ہوچکے ہیں۔ 31 مئی کو منی پور کا تین روزہ دورہ کرکے واپس ہوئے امیت شاہ سے جواب مانگنے منی پور کے نوجوان پہنچے اپنے بیانروں سے مرکزی حکومت کی ناکامی کو آئنہ دکھانے لگ گئے،ککی ویمن فورم کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو ایک درخواست بھی دی ہے جس میں لکھا ہے کہ 29 سے 31 مئی کے درمیان آپ کا دورہ ہوا تھا، اس کے بعد سے 56 ککی گاؤں کو جلادیا گیا ہے۔ اگر یہ حال ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ 35 لاکھ کی آبادی کے حامل منی پور کو سنبھالنا کتنا مشکل ہوچکا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ ہوچکا ہے وہاں سے آنے والی تشددکی خبریں رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ امیت شاہ کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر صبح صبح ککی سماج کی خواتین بیانرس اور پوسٹرس لئے کھڑی نظر آئیں، بہت ساری خواتین نے بطور احتجاج سیاہ لباس زیب تن کیا تھا جن سے ان کے مطالبات کا اندازہ ہورہا تھا۔ ان بیانروں پر لکھا تھا کہ چیف منسٹر بیرن سنگھ تانا شاہ ہیں‘ امیت شاہ جی آپ نے امن کا وعدہ کیا تھا وہ امن کہاں ہے؟ منی پور میں صدر راج نافذ کرنا چاہیئے، ککی لوگوں کی جان بچایئے ، ککی باشندوں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے، قبائیلیوں کی زندگیاں بھی قیمتی ہوتی ہیں جیسے نعروں کے علاوہ تشدد کی تصاویر کے بیانر بھی بناکر لائی تھیں۔ منی پور کے جو حالات ہیں وہاں کی خبروں کی تفصیلات سے اخبارات کے صفحات بھر جانے چاہیئے تھے کہ دارالحکومت امپھال میں پُرتشدد واقعات کا کوئی تو اندازہ ہو لیکن نہیں ہوسکا۔ کیمروں اور موبائیل فون سے بھرے ہوئے اس دورمیں بھی وہاں سے آنے والی تصاویر بہت کم ہیں اور جان و مال کے نقصان کی صحیح تصویر سامنے نہیں آرہی ہے۔ یہاں آئی خواتین دہلی این سی آر ریجن کی ککی ویمن فورم کی ارکان ہیں ان میں سے بعض نے بتایا کہ منی پور کے حالات بہت خراب ہیں۔ ان کے جو گھر بار ہیں گاؤں ہیں ککی قبائیل ہیں ان پر اب بھی حملے ہورہے ہیں، ظلم کیا جارہا ہے چنانچہ دہلی اور این سی آر ریجن اور اپنے ہی علاقہ میں بے گھر ککی خواتین سب نے یہی کہا ہے کہ ہم حکومت پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہم نے یہ سوچا کہ مرکزی حکومت سے یہ درخواست کریں گے تو جو تشدد ہورہا ہے ہمارے خلاف ہنوز جو حملے جاری ہیں ہمارے وزیر داخلہ تک یہ بات پہنچائیں کہ منی پور تشدد میں 5 سال کے بچے کو تک گولی ماری گئی ، ایک سات سالہ لڑکے اور اس کی ماں کوایمبولنس میں زندہ جلادیا گیا ہے۔ ایسے میں ہم نے سوچا کہ عورت ہونے کے ناطے اپنے ککی بھائی بہنوں کی مدد کریں مرکزی حکومت تک یہ بات پہنچائیں کہ ہمارے ساتھ ابھی بھی ظلم ہورہا ہے، ہمارے گاؤں پر حملے ہورہے ہیں ۔ امیت شاہ کے گھر کے باہر بیانرس اور پوسٹرس لیکر پہنچ جانا بتارہا ہے کہ دہلی میں رہنے والے ککی سماج کے لوگوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ 31 مئی کو امیت شاہ نے امن بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا، عدالتی تحقیقات کروانے کی بات کی تھی اور لوٹ لئے گئے ہتھیاروں کو واپس کردینے کی اپیل کی تھی لیکن امن بحال نہیں ہوپارہا ہے۔ اس مسئلہ کو لیکر کسی ٹی وی چیانل پر بحث نہیں ہورہی ہے ، اس پر بھی کوئی بحث نہیں ہورہی ہے کہ ایس پی کمانڈوز کے ساتھ جس ایمبولینس کو لیکر اسپتال جارہے تھے اس ایمبولنس میں آگ لگادی گئی اور ایس پی کمانڈوز کو بھاگنا پڑا ۔ اس ایمبولنس میں سوار ایک ماں اور اس کے بیٹے کو زندہ جلادیا گیا۔ واقعہ 6 جون کو منظرعام پر آتا ہے، ایمبولنس میں مناہین سنگھ اپنے بیٹے تون سنگھ کو لئے جارہی تھیں جو فسادیوں کے گولی کے چھروں سے زخمی ہوگیا تھا۔ ساتھ میں ان کی پڑوسی لیڈپا بھی تھیں ۔ مناہین سنگھ اور لیڈپا میتھی عیسائی ہیں مناہین کی شادی ایک ککی مرد سے ہوئی ہے۔ یہ سبھی تشدد شروع ہونے کے بعد سے آسام رائفلس کے ایک کیمپ میں مقیم تھے، کیمپس پر بھی حملے ہورہے ہیں اُن ہی حملوں میں مناہین کا سات سالہ بیٹا زخمی ہوا۔ بیٹے کی حالت نازک تھی اس لئے اسپتال لے جانا ضروری تھا۔ آسام رائفلس کے عہدہ داروں اور منا کے شوہر نے سوچا کہ اگر مینا اور لیڈپا بیٹے کو لیکر اسپتال جائیں گی تو میتھی اکثریت علاقوں میں خطرہ نہیں ہوگا لیکن اس واقعہ کے بارے میں ٹیلیگراف اور اسکرال کی خبریں پڑھیئے، ایک مقام پر لکھا ہے کہ اس کے باوجود ہجوم نے ایمبولنس کو آگ لگادی کیونکہ مینا نے ککی سے شادی کی تھی اور لیڈیا میتھی ہوتے ہوئے ککی کیمپ میں رہ رہی تھی۔ اسکرال کے اروناب سیکپا نے لکھا ہے کہ ماں، بیٹا اور ان کی پڑوسی کی صرف ہڈیاں ملی ہیں، ٹیلیگراف نے لکھا ہے کہ دو ہزار کے ہجوم میں ایمبولنس کو گھیر لیا اور آگ کے حوالے کردیا۔ اخبار نے ہجوم کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ میتھی سماج کے لوگوں کا ہجوم تھا۔ اسکرال میں اروناب نے لکھا ہے کہ آسام رائفلس کے ذرائع نے انہیں بتایا کہ پولیس ایس پی کو اپنی جان بچانے کیلئے عام کار میں بیٹھ کر بھاگنا پڑا۔ اس واقعہ میں دو کمانڈوز بھی زخمی ہوئے۔ جس ریاست میں ایس پی کو اپنی جان بچا کر بھاگنے کی نوبت ہو، چپہ چپہ پر فوج کے جوان ہوں تب بھی ہجوم ایمبولنس میں آگ لگادے تو سمجھ لیجئے کہ ابھی تک صدر راج نافذ نہیں ہوا ہے۔ جموں و کشمیر میں حکومت صدر راج نافذ کرنے میں ذرہ بھی تاخیر نہیں کرتی تھی ۔ منی پور میں ایک ماہ سے تشدد جاری ہے، کسی چیانل کو ایسا سوال نہیں مل رہا ہے کہ Debate میں اُبال پیدا ہو، میڈیا نے کسی کی جوابدہی کو لیکر سوال کیوں نہیں پوچھا ؟ ککی ویمن فورم نے امیت شاہ کو جو درخواست دی ہے جس کا دعویٰ کیا ہے اس میں جو لکھا ہے اُسے پڑھ کر لگتا ہے کہ منی پور میں سب ختم ہوگیا ہے۔ ککی قبائیل کے لوگوں کا بھروسہ منی پور کی پولیس اور آسام رائفلس سے اُٹھ گیا ہے۔
ہندی ریاستوں کے عوام کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ منی پور میں یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے کشمیر ہوتا تو فوری سمجھ جاتے کیونکہ ان کی ایسی سوچ و فکر بنائی گئی ہے کہ ایک مخصوص مذہب کی مخالفت کے بہانے ان کے سوچنے کا طریقہ تبدیل کیا جاچکا ہے، مگر منی پور کا تشدد ان کیلئے کسی حکومت کی ناکامی نہیں ہے وہ پوچھ بھی نہیں رہے ہیں کہ منی پور میں ذات پات و نسلی منافرت کی آگ کو اس وقت کون بھڑکا رہا ہے؟ کون انھیں ہتھیار سربراہ کررہا ہے جس کے بَل بوتے پر ککیوں کے گاؤں جلائے جارہے ہیں، میتھی لوگوں کے گھروں پر بھی حملے ہورہے ہیں ان کے جلائے جانے کی بھی خبریں ہیں۔پتہ تبھی چلے گا جب وزارتِ داخلہ ملک کے سامنے تمام حقائق رکھے گی۔ ککی قبائیل کا الزام ہے کہ پہاڑوں سے ان کے گاوں کا صفایا کیا جارہا ہے تاکہ میتھی کو بسایا جاسکے، ککی قبائل کیلئے یہ ایک خطرناک بات ہے اس لئے منی پور میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ ضروری ہوگیا ہے۔ پریشانی یہ ہے کہ مودی سرکار کو صدر راج نافذ کرنے کیلئے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو برخاست کرنا ہوگا۔ ڈبل اِنجن‘ ڈبل اِنجن کہنے والی حکومت کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ایک اِنجن فیل ہوچکا ہے اور گاڑی کے پہیوں کو پتہ نہیں چل پارہا ہے کہ اِنجن کدھر چلا گیا ہے۔