موجودہ حالات میں قابل وکلاء کی ضرورت

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ

سپریم کورٹ ایڈوکیٹ مرزا نثار احمد بیگ سے انٹرویو
تعارف: حسب ذیل انٹرویو مشہور کہنہ مشق ماہر قانون و سینئر سپریم کورٹ ایڈوکیٹ جناب مرزا نثار احمد بیگ نظامی صاحب سے لیا گیا ہے ، جنہوں نے ان گنت مقدمات سے کامیابی سے نمٹتے ہوئے قانون کو سربلند کیا ہے ۔ آپ کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ مرزا نثار احمد بیگ نظامی صاحب کے والد مرزا منور احمد بیگ نظامی مرحوم کی خواہش کے مطابق انہوں نے پیشۂ وکالت اختیار کی اگرچیکہ وہ Cardiologist بننے کی خواہش رکھتے تھے ، والد مرحوم کی خواہش کے نتیجے میں وہ قانونی منازل طئے کرتے ہوئے دیگر عدالتوں میں کامیابی کے ساتھ گزرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا تک رسائی حاصل کی اور اس وقت وہ ایک کامیاب اور ہردالعزیز ایڈوکیٹ تصور کئے جاتے ہیں۔
س : آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور آپ کی تعلیم کس اسکول اور کالج میں ہوئی ؟
ج : میں حیدرآباد میں پیدا ہوا اور حیدرآباد کا ہی ہوں ، میری ابتدائی تعلیم جاوید ماڈل اسکول مغلپورہ ، DAFFODILS ہائی اسکول حیدر گوڑہ اور methodist ہائی اسکول Abids میں ہوئی ہے اور گریجویشن B.A عثمانیہ یونیورسٹی سے کیا ہوں۔ قانون کی تعلیم UB مرہٹوارہ یونیورسٹی اورنگ آباد ناندیڑ لاء کالج سے ہوئی اور ایل ایل بی مکمل 1987 ء میں ہوا اور میرا Enrolment 18-12-1987 میں یونائٹیڈ اے پی بار کونسل میں ہوا ۔

س : سپریم کورٹ میں Practice سے قبل آپ نے اور کتنے سال دیگر عدالتوں میں پراکٹس کی ؟
ج : ابتداء میں میں میرے والد جناب مرزا امنور احمد بیگ نظامی مرحوم کے ساتھ حیدرآباد کے تمام Lower Courts اور حیدرآباد ہائی کورٹ میں پراکٹس کی تھی اور میرے والد مرحوم کی خواہش تھی کہ میں سپریم کورٹ میں پراکٹس کروں۔ الحمدللہ 1992 ء سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پراکٹس کررہا ہوں۔
س : قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب کیسے ملی اور آپ نے دیگر پیشوں پر توجہ کیوں نہیں کی ؟
ج : میں امراضِ قلب کا ڈاکٹر یعنی Cardialogist ، بننا چاہتا تھا لیکن میرے والد مرحوم کے اصرار پر میں ایڈوکیٹ بن گیا اور میرے والد مرحوم دونوں پیشوں میں فرق بتایا کرتے تھے کہ ڈاکٹر سفید کوٹ اور ایڈوکیٹ سیاہ کوٹ پہنتے ہیں لیکن دونوں پیشے بھی خدمت خلق ہی ہیں۔
س : ہندوستان میں قانون کی حکمرانی کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں ؟
ج : ہمارا ہندوستان Democratic Country ہے اور طرز حکومت پارلیمانی جمہوریت کہلاتا ہے ۔ موجودہ حالات ناگفتہ بہ ہیں اور جس انداز میں پارلیمنٹ اور اسمبلی میں جمہوری خطوط پر تبادلہ خیال ہونا چاہئے ایسا نہیں ہورہا ہے اکثریت کا فیصلہ خواہ وہ درست ہو یا غلط اسے روبہ عمل لایا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں فائدہ اور نقصان کو ملحوظ رکھے بغیر فیصلہ سازی ہوتی ہے اور اسے روبہ عمل لایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے نہ صرف ملک کے عوام بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہندوستان کی جمہوری شبیہہ متاثر ہورہی ہیں ۔
س : کیا آپ باور کرتے ہیں کہ مقدمات کے تمام فریقین غریب ہوں یا امیر سب کو انصاف مل رہا ہے ؟
ج : عدالت عالیہ سپریم کورٹ میں انصاف تو سب کو مل رہا ہے پہلے جب سپریم کورٹ شروع ہوا تھا ، اس وقت Cases کو Admit کرنے کے لئے ججس کے پاس ، وکلاء کے پاس مناسب Reason ہوتے تھے لیکن اب یہ Spirit باقی نہیں رہی جس کی وجہ سے بعض مواقعوں پر کسی ایک فریق مقدمہ کو ناانصافی کا سامنا ہوتا ہے۔
س : قانون میں اتنی باریکیاں ہوتی ہیں کہ معمولی سی باریکی بھی مقدمہ کے کسی بھی فرقے کو نقصان اور دوسرے کو فائدہ پہنچاسکتی ہے ، اس کا کیا علاج ہے ؟
ج : عدالتوں میں جتنے بھی کیسیس پیش ہوتے ہیں ، اس کو بہت ہی سنجیدگی سے لکھنا ، پڑھنا اور پیش کرنا ہوتا ہے ۔ تھوڑی سی بھی غیر ذمہ داری موکل کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے اور ہم اس کو way of wits کہتے ہیں وکیلوں کو کافی محنت کرنا پڑتا ہے اور قانون کیا ہے اس کی نزاکت اوراس کی حکمت ججس کو بتانا پڑتا ہے اور ہم وکلاء نیچے ٹھہر کر اوپر ججس کو قانون کے فیصلے لکھواتے ہیں۔
س : عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ صرف دولت مند ہی مقدمہ میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور کمزور معیشت والے فریق مقدمہ اپنی معاشی حالات کی وجہ سے حق پر رہتے ہوئے بھی ناکامی کا شکار ہوجاتے ہیں ، اس کے سدباب کیلئے کیا کیا جائے ؟
ج : وکلاء جو سیاسی اٹاچ ہیں ان کو پولیٹیکل (Appointments) ملتے ہیں اور اس کی وجہ سے میرٹ رجحان ختم ہوچکا ہے اور میرٹ کی بنیاد پر ترقی ختم ہوچکی ہے جو سیاسی لیڈر کسی کیلئے ان عہدوں کی سفارش کرتے ہیں ، ان کو عدالت میں اور گورنمنٹ میں رتبوں سے نواز ا جاتا ہے ۔ اگر یہ چیز ختم ہوجائے گی تو انصاف پھر سے زندہ ہوجائے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
س : کیا موجودہ حالات میں نوجوانوں کو پیشۂ وکالت سے وابستہ ہونا چاہئے جبکہ موجودہ حالات مادیت پرستی کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں، کیا پیشے کو اختیار کرنے والے نوجوان دولت کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہوئے ناانصافی کا شکار بن سکتے ہیں ؟
ج : دیکھئے ، جس طرح نوجوانوں کو پیشۂ وکالت سے جڑنا چاہئے اور انڈین ایڈمنسٹریٹیو سرویس سے بھی وابستہ ہونا چاہئے ، اس طرح سے پیشے وکالت سے ہم خدمت خلق کرسکتے ہیں اور جہاں پر بھی ناانصافی ہورہی ہے ، وہاں پر ہم آواز بلند کرسکتے ہیں ۔ قانون کے لحاظ سے کافی فوائد موجود ہیں۔ نوجوان یہ سمجھ لیں کہ رزق کا دینے والا اللہ سبحانہ تعالیٰ ہے اور جتنا ہمارے نصیب میں ہے وہ مل کر ہی رہے گا ۔ اس سے ایک روپیہ بھی کم نہیں ملے گا ۔ آج کل نوجوان نسل Easy Money کے پیچھے دوڑ رہی ہے ، محنت کرنا نہیں چاہتے ہیں اور پیشۂ وکالت اتنا آسان نہیں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔ سب کو بہ آسانی سمجھانے کیلئے یہ شعر کافی ہے ۔
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
اسی طرح محنت جاری رکھنا پڑتا ہے ، کافی شکایتیں ہم سینئر ایڈوکیٹس کے پاس آتی رہتی ہے جس سے ہم کو یہ معلوم ہورہا ہے کہ بعض ایڈوکیٹ اپنا آفس کھولنا نہیں چاہتے۔ موکلین کو Hotel یا Court میں بلاکر بات کرتے ہیں اوران کی سرویس Engage ہونے کے بعد اپنی فیس لے لیتے ہیں اوراس کے بعد موکلین کو عدالت کے بہت سے چکر کٹواتے ہیں اوران وکیلوں سے N.O.C لے کر دوسرے وکیل کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ بعض وکلاء دولت کی چمک دمک کی وجہ سے غیر ذمہ داری سے کام کررہے ہیں اور وہ وکلاء برادری کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان سے میری گزارش ہے کہ اپنی عادتوں کو بدلیں اور زندگی میں کچھ بنیں اور مقام حاصل کرسکیں تاکہ وہ ان کے والدین ، بھائی بہن اور دیگر افراد فخر محسوس کرسکیں اور سوسائٹی کیلئے ایک مثال بن جائیں۔

س : موجودہ حالات میں لڑکی کی شادی کی موزوں عمر آپ کے نظریہ کے مطابق کیا ہونا چاہئے ؟ اور لڑکی میں دیگر کیا خوبیاں ہونا چاہئے ؟
ج : لڑکیوں کے لئے بہترین شادی کی عمر اس وقت آتی ہے جب وہ کم از کم گریجویشن مکمل کرلیں ، یہ اس لئے کہہ رہا ہوں حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو سسرا ل والے یہ توقع کرتے ہیں کہ لڑکی کو سب کچھ جاننا چاہئے یعنی ازدواجی زندگی اور ذمہ داری کیا ہے ، سیکھ کر آئیں ، معصوم لڑکیاں نئی شادی شدہ زندگی میں قدم رکھتی ہیں تو ان کے برتاؤ کا انہیں احساس نہیں ہوتا اور سسرال کا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ ’’گھر لائی ہوئی لڑکی‘‘ کو وہ اپنی بیٹی جیسا سمجھیں اور ازدواجی زندگی اور اس کی ذمہ داریاں بھی سکھائیں کیونکہ یہ ماں کے پیٹ یا ماں کے گھر سے سیکھ کر نہیں آتی ہیں اس لئے وہاں کی ذمہ داریاں کچھ اور ہوتی ہیں اس سے ہٹ کر شادی شدہ زندگی میں تبدیلیاں آتی ہیں جس کا شوہر چھوڑ دے یا انتقال کرجائے تو ایسی صورت میں لڑکی کا کوئی رشتہ دار یا سسرال والے عام طور پر اس کی مدد سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔ اگر لڑکی پڑھی لکھی ہو تو ملازمت کر کے اپنے بچوں کا گزارا کرسکتی ہے ۔
س : آخر میں میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ نوجوانوں کیلئے آپ اپنا زرین مشورہ فراہم کریں تاکہ آپ کا تجربہ اور بصیرت سے وہ فائدہ حاصل کرسکیں؟
ج : میرا مشورہ نوجوان وکلاء اور دیگر نوجوانوں کو یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک مقصد رکھیں اور اس پر توجہ کریں اور بغیر تھکے اپنی جستجو کو اپنی محنت کو جاری و ساری رکھیں چونکہ وہ زندگی میں کامیاب ایک دن میں ہی نہیں ہوسکتے جس طرح ملک روم Rome was not built in a day ایک دن میں تعمیر نہیں کیا گیا اسی انداز میں ہم مکان ایک دن میں نہیں بناسکتے اور مقام بھی حاصل نہیں کرسکتے ۔ زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو چھوٹی سی رباعی یاد کرلیں۔
کچھ کئے جاو لیکر نام خدا
کچھ نہ کرنا بڑی خرابی ہے
کامیابی کوئی اور چیز نہیں
کام کرنا ہی کامیابی ہے
مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔