موجودہ ملکی حالات میں اسبابی نقطہ نظر سے کرنے کے کام

   

ملکی سطح پر انسانیت کو جو چیلنجس درپیش ہیں سارے شہری ان سے سراسیمہ ، بے چین و مضطرب ہیں، ہندوستانیوں کو خود اپنا ہندوستانی شہری ہونا ثابت کرنا اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہےکیونکہ ملک کے وزیر داخلہ نے آدھار کارڈ ،ووٹر آئی ڈی ، پاسپورٹ وغیرہ جیسے اہم دستاویزات کو شہریت ثابت کرنے کےلئے ناکافی قرار دے دیا ہے ، اگر کسی کے ہاں زمین و جائیداد وغیرہ کے قانونی دستاویزات موجود بھی ہوں تو ان میں درست اندراجات ایک دوسرا اہم مسئلہ ہے، اکثرو بیشتر کا مشاہدہ ہے کہ سرکاری محکمہ جات میں جو اندراجات ہوتے ہیں وہ اکثر آفیسروں کی غلطی کا شاخسانہ ہوتے ہیں، جس کا نقصان عموماً قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو ہوتا ہے ، دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے ملک کی اکثریت کے ہاں زمین و جائیداد نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہےتو پھر ان کے ہاں دستاویزات کہاںسے آئینگے ،غربت و افلاس کی وجہ ملک کی بڑی آبادی نان و شبینہ کی محتاج ہے ،ان میں سے اکثریت کو آسودگی کے ساتھ دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیںہے ،غریبوں کیلئے تعلیم اور صحت بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ،جس حل کی کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی حکومت کے پاس نہیں ہے ، ایسے میں موجودہ غیر دستوری قوانین کے نفاذ سے غریب شہریوں کی زندگی کا چین و سکون رخصت ہوگیا ہے ، غریب شہری روٹی روزی کی فکر کریں یا پھر دستاویزات کی فراہمی کی فکر میں غم کے آنسو روئیں ،اس سلسلے میں ہمارے ایک غیر مسلم بھائی شیام میراسنگھ صاحب کی تجزیاتی تحریر ان حقائق سے پردہ اٹھارہی ہے ، اس کا ترجمہ جناب اشعر نجمی صاحب نے کیا ہے ،اس تحریر میں جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں وہ مرکزی حکومت ہی کے پیش کردہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار جناب ارون جیٹلی صاحب نے پارلیمنٹ میں پردھان منتری مدر یوجنا لاگو کرتے وقت پیش کئے تھے۔ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے اور سردھنیے
تیس (۳۰)کرو ڑ افراد کے پاس کوئی اراضی نہیں ہے ،ایک سوستر( ۷۰ ۱)لاکھ لوگ ذاتی رہائشی مکان سے محروم ہیں،کسی کے ہاں جھگی جھونپڑی ہے تو کوئی فٹ پاتوں اور فلائی اوور کے نیچے اور کچھ رین بسیرامیں غربت کی مصیبت جھیلتے ہوئے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں مرکزی سرکار کی جانب سے سروے کرنے والے ادارہ این ایس ایس او (NSSO) نے سوال اٹھائے ہیںکہ یہ کہاں کے کاغذات پیش کریں ،آیا فٹ پاتھ کے یا فلائی اوور کے ؟ ایک تجزیاتی تحقیق یہ ہے کہ اس دیش میں خانہ بدوشوں کی تعداد تخمینی پندرہ(۱۵) کروڑ ہے،ان کے رہنے سہنے کا کوئی مستقل ٹھکانا نہیں ہوتا ،زندگی گزارنے کاجو کچھ ٹوٹاپھوٹا سامان زندگی ہے اس کا بوجھ اپنےکاندھو ں پر لادے وہ آج یہاں تو کل وہاں دکھائی دیتے ہیں،آٹھ (۸) کروڑ ترتالیس (۴۳) افراد آدیبا سی ہیں،جن کے اعداد و شمار کی کوئی گنتی حکومت کے پاس بھی نہیں ہے ،(مردم شماری : ۲۰۱۱ء ) سب سے ہم بات یہ کہ۱۹۷۰ء میں ملک کی شرح خواندگی چونتیس (۳۴)فیصد تھی،اس کا مطلب یہ ہے کہ چھیاسٹھ(۶۶) فیصد شہری تعلیم سے محروم تھے ،اس سے صاف واضح ہے کہ اس ملک کے چھیاسٹھ (۶۶) فیصد پرکھوں اور بزرگوں کے پاس لکھائی پڑھائی کا کوئی دستاویزی ثبوت ہی نہیں ہے ،آج بھی چھبیس (۲۶) فیصد یعنی اکتیس (۳۱) کروڑ ملک کی آبادی وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ کسی اسکول یا مدرسہ میں قدم ہی نہیں رکھ سکی ہے ،ان کے ہاں کسی طرح کے تعلیمی دستاویزات کہاںہوسکتے ہیں،موجودہ حکومت کے نت نئے غیر جمہوری اقدامات وغیر دستوری قوانین کے نفاذ سے ان شہریوں پر ہی شکنجہ کسا جارہا ہے جنہوں نےنیک توقعات کے ساتھ ان کی پارٹی کو ملک کے دستور کا محافظ اور ہند کے سیکولر ڈھانچہ کی حفاظت کا امین بنایا ہے،لیکن افسوس حکومت کے کارندے خوددستور و آئین سے کھلواڑ کررہے ہیں،شہریو ں کے حقوق چھین کر ملک کے سیکولر کردار کو داغدار کررہے ہیںملک کی ترقی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور دستور کے مطابق ان کی فلاح و بہبود جیسی اہم ذمہ داریوںکو نبھانا چاہئے تھا ،جان بوجھ کر وہ اس سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہیں،کسی بھی طرح کے فلاحی اقدامات کے روبہ عمل لانے میں سخت ناکام ہیں ، مزید دل دکھانے والی بات یہ ہے کہ شہریوں سے وصول کی جانے والی ٹیکس کی رقم جو شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہئے وہ شہریو ں کو ِشہری نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے پر صرف ہورہی ہے ،چنانچہ آسام میں سولہ سو (۶۰۰،۱)کروڑکا تخمینی خرچ عائد ہوا ہے ،آسام کے باشندوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے دستاویزات کی درستگی میں بڑی رکاوٹیں پیش آئی ہیں، رشوت ستانی کا بازار گرم ہوگیا تھا، لیڈروں ،درمیانی آدمیوں اور محکمہ جاتی آفیسرس کی چاندی بن رہی تھی،اس کے نتیجہ میں انیس (۱۹)لاکھ آبادی اب بھی پریشا ن ہے شاید ڈیٹنشن سنٹر ان کا مقدر بنے طرفہ تماشہ یہ کہ آسام کے بعد پورے ملک کواس مصیبت میں جھونک دیئے جانے کا شدید خطرہ لاحق ہے ،اسی وجہ سے ان قوانین کے خلاف ملک و بیرون ملک احتجاجات کاسلسلہ جاری ہے، خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی ) ‘مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب ‘ کویت ‘ متحدہ عرب امارات ‘ قطر ‘ بحرین اور عمان میں اس بل کی منظوری نے ہلچل پیدا کردی ہےاقوام متحدہ میں بھی اب اس کی گونج سنی جارہی ہے ،امریکہ میں ہیومن رائیٹس واچ کے ایشیا ایڈوکیسی ڈائرکٹر جان سفٹن نے کہا کہ ۱۹۷۹ء میں ہندوستان نے شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی میثاق کی توثیق کی تھی جس میں واضح ہے کہ آپ لوگوں کو ان کی نسل، ان کے رنگ ، ان کی قومیت کی اساس پر ان کی شہریت سے محروم نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح ۱۹۶۷ء میں نسلی تعصب کی تمام شکلوں کو ختم کرنے سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کی بھی دستخط اور توثیق کی تھی۔ پھر بھی حکومت کے ذمہ دار جو دراصل آر ایس ایس کے آلۂ کار ہیں وہ دن کے اجالے میں سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں،حکومت کے تخت تک پہنچانے والے شہری اگر کچھ نہیں کرسکیں تو کیا کم از کم پرامن احتجاج بھی نہیں کرسکتے ؟ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ حکومت اپنی روش بدلتی غیر دستوری و غیر آئینی قوانین سے دستبرداری اختیار کرتی لیکن افسوس حکمراں پارٹی سے تعلق رکھنے والے شرپسند عناصر ان پرامن احتجاجات کو سبوتاج کرنے کی غرض سے فساد و بدامنی پھیلارہے ہیں۔
ان غیر جمہوری قوانین سے حکومت دستبردار نہ ہو تو خطرہ ہے کہ یہ ملک کہیں مصائب و آلام کی کھائی میں نہ گرپڑے ، ان حالات میں بلالحاظ مذہب و ملت ملک کے سارے شہریوں کو ان قوانین کے خلاف نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے ، جس کی بڑی حد تک تکمیل ہورہی ہے ، لیکن مسلم شہریوں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ حکومت کے ذمہ داروں کو دستور و آئین کی روشنی میں انسانی احترام اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا پابند بنانے کیلئے برادران وطن کو ساتھ رکھتے ہوئے دستوری و آئینی کوشش کریں، الحمد للہ پورے ملک میں بڑی حد تک یہ کوشش جاری ہے ،اللہ سبحانہ سے دعا ہے کہ وہ اس کو نتیجہ خیز بنائے ۔آمین
لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا کامیابی کیلئے فقط یہی کوشش کافی ہے یا ا س کیلئے اور بھی کچھ کرنا ضروری ہے ،صدر بالا کوششیں اسباب کے درجہ کی چیز ہیں اسباب کے درجہ میں ایک اور اہم کام کی جانب خاص توجہہ کی ضرورت تھی،اس سے مسلمان غافل رہے ،اب بھی وقت ہے کہ مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس کو روبہ عمل لانے کی اجتماعی و انفرادی جدوجہد کا آغاز کریں ،پہلا کام یہ کہ غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں ان میں جو غریب ،کمزور اور پسماندہ ہیں ان کو خاص طور پر سینہ سے لگایا جائے ،ہم کو یہ کام روز اول ہی سے کرنا چاہئے تھا چونکہ یہ کام خدمت خلق کا ہے اور اسلام نے اس کام کا مسلمانوں کو پابند کیا ہے ،کتاب و سنت کی آیات و احادیث اس باب میں بکثرت وارد ہیں ، اسلام نے خدمت خلق کو عبادت کا درجہ دیا ہے اب تک جو ہوچکا سوہوچکا آئندہ کیلئے ابھی اور اسی وقت سے منصوبہ بند لائحہ عمل مرتب کرکے اس پر عمل آوری کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہئے ، خدمت خلق کے کام سرمایہ کے بغیر انجام نہیں پاتے ،ملک کے بہت سے مسلمانوں کواللہ سبحانہ نے بیحدو بے حساب دولت عطا فرمائی ہے ،دولت کمانے اور خرچ کرنے کے بارے میں بھی مسلما ن پابند ہیں کہ وہ جائز راہ سے کمائیں اور جائز راستوں میںخرچ کریں ، اس بارے میں بروز حشر مسلمانوں سے پوچھ ہوگی ، حدیث پاک میں وارد ہے حشر کے دن انسان کے قدم آگے نہیں بڑھ سکیں گے یہاں تک کہ اسے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے ان میں دو سوال مال کے بارے میں کہ وہ مال کیسے آپ تک پہنچا پھر آپ نے اس کو کیسے خرچ کیا …وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ ۔(شعب الایمان للبیہقی۱۶۴۸)اس وقت افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم دولت مندوں کی اکثریت ان کا پاس و لحاظ رکھنے میں بڑی حد تک ناکام ہے ، مسلمانوں کی شادی بیاہ کی تقاریب میں جو اسراف و غیر شرعی رسوم و رواجات کا چلن عام ہوگیا ہے ،اس پر کوئی روک نہیں لگ رہی ہے ، عالمی اور ملکی سطح پر ناگفتہ بہ حالات بھی مسلمانوں کو اس غیر شرعی روش سے باز نہیں رکھ پارہے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلمانوں کا محنت و جاںفشانی سے کمایا ہوا جائز سرمایہ خدمت خلق کے جائز مدّات میں خرچ ہوتا ، ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘‘۔مسلم دنیا خواہ وہ مسلم ملکو ں کی ہو کہ جمہوری ملکوں کی سخت امتحان و آزمائش میں گرفتار ہے ، انسان دشمن درندہ صفت ظالم حکمرانوں کے ہاتھ بے قصور مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں ، فلسطین ، میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو کے لالے پڑے ہوئے ہیں ، خود ہندوستان کی بعض ریاستوں میں مسلمان کربناک حالات سے دوچار ہیں۔درجہ بالا دونوں طرح کی کوششیں اسباب کا درجہ رکھتی ہیں، اللہ سبحانہ نے چونکہ اس کائنات کے نظام کو اسباب پر رکھا ہے ، اس لئے اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے ، جو توکل کے منافی نہیں ،اس کے ساتھ جو بہت زیادہ ضروری اور دو کام ہیں وہ ہیںمعرفت الہٰی و تعلق مع اللہ اس کے تقاضوں کی تکمیل اور تشنہ انسانیت کی سیرابی کا کام جن سے اللہ سبحانہ کی مدد و نصرت نازل ہوتی ہے اور اسبابی جدوجہد ثمرآور ہوتی ہے ، ان شاء اللہ آئندہ ا س پر گفتگو ہوگی ۔