مودی نے امیروں کاکروڑ وںقرض معاف کر کے غریبوں کا حق مارا

,

   

ذات پر مبنی مردم شماری کی کانگریس تجویز نے مخالفین کی نیند اُڑا دی : راہول گاندھی

نئی دہلی: کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے پی ایم مودی پر راست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صنعت کاروں کے 16 لاکھ کروڑ روپے کے قرضے معاف کر کے غریبوں کا حق چھینا ہے آج یہاں جاری ایک بیان میں گاندھی نے کہا کہ پی ایم نے اپنے ارب پتی دوستوں کے 1,60,00,00,00,00,000 روپے یعنی 16 لاکھ کروڑ روپے کا قرض معاف کیا ہے انہوں نے کہا کہ اتنی رقم کا قرض معاف کر کے پی ایم مودی نے ملک کے کروڑوں غریبوں کا حق چھین لیاہے۔انہوں نے کہا کہ اتنی رقم سے 16 کروڑ نوجوانوں کو سالانہ ایک لاکھ روپے کی نوکری مل سکتی تھی، 16 کروڑ خواتین کو سالانہ ایک لاکھ روپے دے کر ان کے خاندانوں کی زندگیاں بدلی جا سکتی تھیں اور 10 کروڑ کسان خاندانوں کے قرضے معاف کر کے بے شمار خودکشیوں کو روکا جاسکتا تھا۔ راہول نے کہا کہ اس رقم سے پورے ملک کو 20 سال کیلئے صرف 400 روپے میں گیس سلنڈر دیا جا سکتا تھا اور تین سال تک ہندوستانی فوج کے پورے اخراجات برداشت کیے جا سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی قبائلی اور پسماندہ سماج ہر نوجوان کی گریجویشن تک کی تعلیم مفت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جو پیسہ ’ہندوستانیوں‘ کے درد کی دوا بن سکتا تھا، اسے ’اڈانیوں‘ کی ہوا بنانے میں خرچ کردیا گیا، اس جرم کے لیے ملک نریندر مودی کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اب ہاتھ بدلے گا حالات، کانگریس ہر ہندوستانی کی ترقی کیلئے حکومت چلائے گی۔ جواہر بھون میں سماجی انصاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راہول نے وزیراعظم مودی اور بی جے پی کو شدید نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہ کہ جب سے میں نے ذات پر مبنی مردم شماری کا آئیڈیا پیش کیا ہے، تمام نام نہاد محب وطن خوفزدہ ہیں۔ یہ مردم شماری میرے لیے سیاست نہیں ہے بلکہ یہ میری زندگی کا مشن ہے۔ جیسے ہی کانگریس کی حکومت مرکز میں اقتدار میں آئے گی، ہم اسے فوری طور پر انجام دیں گے اور یہ میری گارنٹی ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشرے کے تمام طبقات کو ان کے حقوق نہیں مل رہے ہیں۔میڈیا کے انتظامی سطح پر یا نجی اسپتالوں اور بڑی کمپنیوں اور یہاں تک کہ عدلیہ میں بھی دلتوں، قبائلیوں یا او بی سی کی شاید ہی کوئی موجودگی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر نے کہا کہ مجھے ذات سے نہیں بلکہ انصاف میں دلچسپی ہے۔ ہندوستان میں 90 فیصد لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کتنی ناانصافی ہو رہی ہے اور یہ ذات پر مبنی مردم شماری سے ہی ممکن ہے۔