مودی پر کے سی آر کی بھڑاس

   

کنے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
آنسو بہائے چار طبیعت سنبھل گئی
حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے مابین دوریوں میں شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف انتہائی شدید تنقیدیں کی جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو سیاسی حملوںکا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کے حکومتوں کے خلاف تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ انہیں ناکام قرار دیا جا رہا ہے ۔ انہیں عوام دشمن قرار دیا جا رہا ہے ۔ سارا کچھ ریاست میں اقتدار کیلئے ہے ۔ بی جے پی ریاست میں کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے حالانکہ اس کیلئے یہ فی الحال ایک ناممکن سا خواب ہے کیونکہ ریاست میں اس کے صرف تین ارکان اسمبلی ہی ہیں۔ اسی طرح ٹی آر ایس ریاست میں بہرصورت اپنا اقتدار بچانا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی اپنی پہلی معیاد میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے ایک دوسرے کی ممکنہ حد تک مدد کی ہے ۔ ایک کی ستائش کی گئی ہے ۔ مشکل وقت میں ساتھ دیا گیا ہے ۔ ٹی آر ایس نے مشکل وقت میں مودی حکومت کو پارلیمنٹ میں مدد فراہم کرتے ہوئے کئی بلوں کی منظوری میں اس کی مدد کی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ نوٹ بندی میں تائید کی گئی اور تین طلاق بل کی منظوری میں غیر حاضـری کے ذریعہ مودی کے کام کو آسان کیا گیا ۔ تاہم جب ایک دوسرے کے سیاسی مفادات ٹکرانے کی نوبت آئی تو دونوں نے ایک دوسرے کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی کے حوصلے دو ضمنی انتخابات میں کامیابیوں کی وجہ سے بلند ہیں حالانکہ بحیثیت مجموعی صرف تین ارکان اسمبلی تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے ہیں ۔ تاہم مرکز کے اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی ریاست میں زور بتانا چاہتی ہے اور تشہیری حربہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خود ٹی آر ایس سربراہ و چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ بی جے پی پر بھڑاس نکال رہے ہیں اور اب تو انہوں نے راست وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے مودی کو بوڑھا قرار دیا ۔ ناکارہ قرار دیا اور انہیں عہدہ سے ہٹادینے پر زور دیا ۔ اس طرح چندر شیکھر راؤ راست مودی سے ٹکراؤ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگئے ہیں تاہم یہ کس حد تک کارگر ہوسکتی ہے یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ا
سیاسی حلقوں کی جہاں تک بات کی جائے تو یہ تاثر عام ہے کہ کے سی آر کی بھڑاس در اصل بی جے پی کو انتخابی میدان میں مستحکم کرنے کی وجہ بھی بن سکتی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ چندر شیکھر راؤ در اصل ریاست کے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ریاست میں اصل مقابلہ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہے اور کانگریس مقابلہ میں نہیں ہے ۔ حالیہ عرصہ میں کے سی آر کو مختلف سروے رپورٹس میں یہ پتہ چلا ہے کہ کانگریس خاموشی کے ساتھ عوامی تائید حاصل کرنے کے قریب پہونچ رہی ہے ۔ وہ خود کو انتخابات کیلئے تیار کر رہی ہے اور اسے عوام کی تائید مل بھی سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کے سی آر چاہتے ہیں کہ عوام میں اصل مقابلہ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان ہونے کی بات مستحکم ہوجائے جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا اور وہ بی جے پی کے خلاف مقابلہ کے نام پرا یک بار پھر اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اقلیتوں کا جہاں تک سوال ہے تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اقلیتیں حکومت کی مسلسل لاپرواہی اورناانصافیوں کی وجہ سے ٹی آر ایس سے ناراض ہیں۔ ان کی ناراضگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ٹی آر ایس مسلمانوں سے ہمدردی کی زبانی باتیں ضرور کرتی ہے ۔ انہیں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں لیکن جب عملی اقدامات کی بات آتی ہے تو سب سے آخر میں مسلمان کا نمبر آتا ہے ۔ نہ فنڈز کے الاٹمنٹ میں مسلمانوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئے ہی حکومت کوئی کوشش کرتی ہے ۔
یہ ایسی صورتحال ہے جس میں اقلیتیں کانگریس کی سمت متوجہ ہوسکتی ہیں۔ ٹی آر ایس سے دوری کے نتیجہ میں اقلیتوں کے پاس یہی ایک متبادل رہ جائیگا کیونکہ بی جے پی سے اقلیتیں قربت نہیں بناسکتیں۔ بی جے پی قائدین کے بیانات بھی اشتعال انگیز ہیں ۔ ایسے میں ٹی آر ایس کو یہ فکر ہوسکتی ہے کہ اقلیتیں کانگریس کے قریب نہ ہونے پائیں۔ یہی وجہ بھی ہے کہ کے چندر شیکھر راؤ ریاست میں اصل مقابلہ ٹی آر ایس اور بی جے پی میں ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور سیاسی حکمت عملی کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے ۔ ان کی یہ حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہوگی اور کے سی آر کس حد تک عوامی تائید برقرار رکھ سکتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے ۔