مودی کی ضمانتیں

   

شہرت کی بھوک ہم کو کہاں لیکے آگئی
ہم محترم ہوئے بھی تو کِردار بیچ کر
مودی کی ضمانتیں
حالانکہ ابھی ملک میںالیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے شیڈول جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن سیاسی جماعتوں نے انتخابات کیلئے اپنی تیاریوں کا آعاز کردیا ہے ۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے ا۔ڈیا اتحاد میںشامل جماعتوں کے ساتھ نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات کا عمل مکمل کیا جا رہا ہے ۔ کئی جماعتوں کے ساتھ بات چیت مکمل ہونے کے بعد مفاہمت کو بھی قطعیت دی جاچکی ہے ۔ چند ایک ریاستوں میںاس سلسلہ میں بات چیت کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ دوسری جانب بی جے پی نے بھی اپنی تیاریوں میںتیزی پیدا کردی ہے ۔ اس نے اپنی امیدواروں کی پہلے فہرست بھی جاری کردی ہے ۔ اس فہرست میں وزیر اعظم نریندر مودی ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ اور کئی دوسرے سرکردہ قائدین کے نام شامل ہے جو آئندہ انتخابات میںاپنے اپنے حلقوں سے مقابلہ کرینگے ۔ وزیر اعظم مودی ایک بار پھر وارناسی حلقہ ہی سے مقابلہ کرنے والے ہیں جبکہ امیت شاہ کو گاندھی نگر سے امیدوار برقرار رکھا گیا ہے ۔ اسمرتی ایرانی بھی دوبارہ امیٹھی سے مقابلہ کرنے والی ہیں۔ امیدواروں کی فہرست کی اجرائی سے پہلے ہی بی جے پی کی جانب سے انتخابی تشہیر کا عملا آغاز کردیا گیا تھا ۔ سارے ملک میں بی جے پی کے قائدین کی جانب سے ملک کی ترقی کیلئے مودی کی ضمانت کا نعرہ دیا جا رہا ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ نریندر مودی نے سارے ملک کو ترقی دینے کی ضمانت دی ہے ۔ بی جے پی قائدین کے اس نعرہ کو گودی میڈیا کی جانب سے بھی بہت زیادہ تشہیر دی جا رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ مودی کی ضمانت ہے تو پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ گودی میڈیا کی چاپلوسی اور تلوے چاٹنے کی عادت ہوگئی ہے کیونکہ میڈیا کا کام کسی کے وعدوں اور نعروں کی توثیق کرنا نہیںہوتا بلکہ ان کے وعدوں کی سچائی کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں تاہم ایسا نہیںہو رہا ہے کیونکہ ملک میں میڈیا اب آزاد نہیںرہ گیا ہے ۔ بے شمار چینلس ایسے ہیں جو کارپوریٹس کی جانب سے خرید لئے گئے ہیں اور یہی کارپوریٹس اب میڈیا چلانے لگے ہیںاور وہ حکومت کی چاپلوسی میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کو بے چین ہوئے بیٹھے ہیں۔
آج بی جے پی کے قائدین مسلسل مودی کی ضمانتوںکی تشہیر کرنے میںمصروف ہیں لیکن وہ یہ وضاحت کرنے کو تیار نہیںہیں کہ مودی نے 2014 کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے ملک کے عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان پر اب تک کیا کچھ پیشرفت ہوئی ہے ۔ یہ سوال کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے کہ سالانہ دو کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کی بھی مودی نے ضمانت دی تھی لیکن ابھی تک اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے ۔ ایک سال میں دو کروڑ روزگار فراہم کرنا تو دور کی بات ہے پورے دس برس کی دو معیادوں میں بھی مودی حکومت نے دو کروڑ ملازمتیں فراہم نہیںکی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ملک میں جتنی سرکاری نوکریاں تھیںان میں بے تحاشہ تخفیف کرتے ہوئے کئی سرکاری اداروں کو حکومت کے تلوے چاٹنے والے کارپوریٹس کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ کوڑیوںک ے بھاؤ میں عوامی املاک کو فروخت کردیا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں سرکاری ملازمتوں میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی ہے ۔ اس کے علاوہ مودی نے بیرونی ممالک میں چھپائے گئے کالے دھن کو واپس لانے اور ملک کے ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک اس کا کوئی تذکرہ نہیں رہ گیا ہے ۔ خود وزیر داخلہ امیت شاہ نے تو یہ بھی واضح کردیا ہے کہ یہ کوئی وعدہ نہیں تھا بلکہ یہ محض ایک انتخابی جملہ تھا اور اس کی کوئی اہمیت یا حقیقت نہیں ہے ۔ ایسے میں اب جن ضمانتوں کی بات کی جا رہی ہے انہیں بھی اگر مستقبل میں جملہ قرار دیدیا گیا تو پھر ملک کے عوام کیا کر پائیں گے ؟ ۔ کوئی بھی حکومت سے اس تعلق سے سوال کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
مرکز کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا اور ضمانت دی گئی تھی لیکن اب تک یہ ضمانت بھی پوری نہیںہوئی ہے ۔ الٹا کسانوں کیلئے اقل ترین امدادی قیمت کو قانونی حیثیت دینے بھی مرکزی حکومت تیار نہیں ہے ۔ کسان اس مطالبہ کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کی بجائے حکومت ان کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہی ہے اور کسان شہید بھی ہو رہے ہیں۔ اس تعلق سے بھی کوئی میڈیا یا اینکر سوال کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سب حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کیلئے بے چین ہیں۔ ہر بے گھر شہری کو ذاتی گھر فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا ۔ اسے بھی پورا نہیں کیا گیا ۔ ان سب وعدوں کو فراموش کردینے کے بعد اب ضمانتوں کی تشہیر کی جا رہی ہے تاہم ان ضمانتوں کے مستقبل میں پورا کئے جانے کی خود کوئی ضمانت نہیںہے ۔
تلنگانہ ‘ بی آر ایس کو جھٹکے
تلنگانہ میںاقتدار سے محروم ہونے کے بعد بی آر ایس کو لگاتار سیاسی جھٹکے لگ رہے ہیں اور اس کے قائدین دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ بی آر ایس کے دو ارکان پارلیمنٹ بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں جبکہ ایک رکن پارلیمنٹ کے علاوہ دوسرے کئی قائدین نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ بی آر ایس کیلئے یہ صورتحال انتخابات سے قبل مشکل اور تکلیف دہ قرار دی جا رہی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بی آر ایس کیلئے وہی کچھ سامنے آر ہا ہے جو اس نے خود اقتدار میںرہتے ہوئے کیا تھا ۔ بی آر ایس نے تلنگانہ میں دوسری مرتبہ اقتدار میں رہتے ہوئے دوسری جماعتوں کے کئی قائدین بشمول ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے اکسایا تھا ۔ اب یہی صورتحال بی آر ایس کیلئے پیش آ رہی ہے ۔ سیاسی اقتدار کے نشہ میں مستقبل کے حالات کونظر انداز کرنے کا یہی نتیجہ ہوسکتا ہے ۔ اس صورتحال سے بی جے پی کو بھی سبق لینے کی ضرورت ہے جو آج دوسری جماعتوں کے قائدین کو انحراف کیلئے اکسا رہی ہے ۔ مرکز میں اقتدار سے محرومی کے بعد اسی صورتحال کا بی جے پی کو بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔