مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی برخاستگی ، حکومت کی مسلم دشمنی!

   

رام پنیانی
سچر کمیٹی نے جسے 2005ء میں یو پی اے۔I نے مقرر کیا تھا، سال 2006ء میں اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کی۔ اس کمیٹی نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ ملک میں سماجی و سیاسی زندگی کے تمام شعبوں میں مسلم کمیونٹی کی حالت دن بہ دن گرتی جارہی ہے، انہیں اپنے خلاف تشدد کے باعث عدم تحفظ و سلامتی کا سامنا ہے اور سماجی و سیاسی زندگی میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑی تیزی سے گھٹتی جارہی ہے چنانچہ یو پی اے نے اس سماجی سیاسی مسئلہ کے حل کیلئے اقدامات کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت نے جو اقدامات کئے، ان میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کا قیام بھی شامل ہے جو دراصل اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کے شعبہ سے جڑے اقلیتی طلباء و طالبات کیلئے قائم کیا گیا۔ اس میں تمام مذہبی اقلیتوں بشمول مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں ، جین اور بدھسٹوں کیلئے گنجائش فراہم کی گئی چونکہ اس فیلوشپ سے مسلم طلبہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہورہا تھا اور 1000 فیلوشپ میں سے 733 مسلم امیدواروں کو دی گئیں۔ شاید اس سے حکومت کے حامیوں کو پریشانی لاحق ہوگئی حالانکہ ہم سب جانتے ہیں، حکومت کو بھی معلوم ہے کہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول، غربت اور مثبت یا اثباتی اقدامات نہ کرنے کے باعث آزادی کے بعد مسلمانوں کا تعلیمی موقف بد سے بدتر ہوگیا اور تعلیمی اداروں میں مسلم طلباء و طالبات کے اندراج میں بھی خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 17 سال سے زائد عمر کے تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلباء و طالبات کی تعداد بھی غیرمعمولی طور پر گھٹ گئی جس کا اندازہ مرکزی وزارت تعلیم کے تعلیمی ڈیٹا سے لگایا جاسکتا ہے جس میں مسلمانوں میں دسویں جماعت کا اوسط 17% ہے جبکہ اس معاملے میں قومی اوسط 22% ہے۔ مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 57.3% ہے جبکہ قومی سطح پر 73.4% ہے جبکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کی تمام مذہبی اقلیتوں میں ناخواندگی کی سب سے زیادہ شرح مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ میٹرک میں مسلمانوں کی شرح سب سے کم ہے تو پھر اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں ان کی حالت زار کیا ہوگی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور تحقیق کے شعبہ میں بھی مسلم طلباء کا تناسب بہت کم ہے۔ ایسے میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں آگے بڑھانے کا کسی حد تک ذریعہ بن گئی تھی۔ آپ کو بتادیں کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 14.2% لیکن صرف 5.5% مسلمان ہی اعلیٰ تعلیم کی سطح تک پہنچتے ہیں۔ مردم شماری سال 2011ء کے ڈیٹا کے مطابق ہندوؤں میں 5.98% نوجوان گریجویٹس ہیں جبکہ مسلمانوں میں یہ تعداد 2.76% بتائی گئی ہے۔ مودی حکومت نے صرف مولانا آزاد فیلوشپ ہی برخاست نہیں کی بلکہ ان ہی خطوط پر اقدامات کرتے ہوئے مسلم طلباء و طالبات کیلئے پری میٹرک اسکالرشپ کو بھی صرف 9 ویں اور 10 ویں کے طلباء و طالبات تک محدود کردیا۔ واضح رہے کہ پری میٹرک اسکالرشپ سال 2008ء میں شروع کی گئی تھی اور جس سے ثانوی تعلیم کے مسلم طلبہ کو اچھی خاصی مدد مل رہی تھی۔حد تو یہ ہے کہ نریندر مودی نے چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے بھی سپریم کورٹ میں پرزور انداز میں یہ استدلال پیش کیا تھا کہ مرکز پری میٹرک اسکالرشپ پر عمل آوری کیلئے ریاست گجرات کو مجبور نہیں کرسکتا کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر دی جارہی ہے۔ اس وقت مذکورہ اسکیم کیلئے مرکز نے اپنا جو حصہ گجرات کو بھیجا تھا، حکومت گجرات نے اسے واپس کردیا تھا۔ شاید اپنے اُسی موقف کی بنیاد پر اب مرکزی حکومت نے پری میٹرک اسکالرشپ کو بھی 9 ویں اور 10 ویں جماعت کے طلبہ تک ہی محدود کردیا۔ اس ضمن میں اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ نومبر 2022ء میں ایک اعلامیہ بھی جاری کیا۔
جہاں تک مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کا تعلق ہے، 8 ڈسمبر 2022ء کو مرکزی وزیر اقلیتی اُمور سمرتی ایرانی نے اس کے برخاست کرنے کا اعلان کیا اور ڈسمبر 2022ء سے یہ فیلوشپ روک دی گئی۔ حکومت کی اس پالیسی بلکہ زور زبردستی کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔ کئی کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں اس مسئلہ کو اٹھایا۔ سمرتی ایرانی کا یہ استدلال ہے کہ یہ اسکیم مسلم طلباء کیلئے شروع کردہ اسی طرح کی دوسری اسکیمات سے گڈمڈ ہورہی ہیں حالانکہ ایسی ہی ایک اسکیم او بی سیز سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کیلئے بھی ہے۔سمرتی ایرانی شاید یہ بھول گئی ہیں کہ ایک طالب علم ایک ہی وقت میں دو اسکالرشپس حاصل نہیں کرسکتا۔
ریسرچ اسکالر عبداللہ خاں (’’مسلم مرر‘‘) کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں مسلم طلبہ بہت کم ہیں۔ آل انڈیا سروے آن ہائیر ایجوکیشن (AISHE) میں اس بات کا انکشاف ہوا۔ ہائیر ایجوکیشن میں بھی مسلم اقلیت کے طلبہ کی نمائندگی درج فہرست طبقات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات (OBCs) سے بھی کم ہے لیکن افسوس صد افسوس کے مودی حکومت کے اس اقدام سے واضح ہوتا ہے کہ وہ مساویانہ مواقع کے تحت مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے جو بھی چھوٹا موٹا قدم اٹھایا گیا، اسے ختم کررہی ہے۔ سیاسی سطح پر ہم نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو مختلف انداز میں نشانہ بنارہی ہیں۔ ہم نے حالیہ عرصہ کے دوران شاردھا ۔ آفتاب جیسے واقعات میں ’’لو جہاد‘‘ کے زاویہ کو جان بوجھ کر اچھالتے اور اس پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالتے دیکھا ہے۔ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شاردھا ۔ آفتاب واقعہ کی سب سے اہم وجہ مردوں کی اجارہ داری والے معاشرہ میں خواتین کے خلاف تشدد کا رجحان ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں جہاں خواتین کے خلاف ہندو مرد تشدد برپا کرتے ہیں۔ ہم نے بے شمار ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں ہندو مردوں نے خواتین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا لیکن ان واقعات کو نظرانداز کردیا گیا اور یہ سب کچھ ایک سیاسی ایجنڈہ کے تحت کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کسی بھی برادری کی سماجی ترقی کی کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ سعید مرزا کی کلاسک ’’سلیم لنگڑے پہ مت رو‘‘ میں اس نکتہ کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا۔ حال ہی میں ممبئی سے کام کررہے ہیومن رائٹس گروپ ’’بیباک کلکتو‘‘ نے ایک سروے کا اہتمام کیا جس میں بتایا گیا کہ مسلم نوجوان ملک کے موجودہ سماجی حالات سے بہت پریشان ہیں اور سب سے زیادہ متاثر بھی ہورہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اقلیتوں کو ترقی سے روک کر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ترقی کے سفر میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ذات پات، رنگ و نسل، مذہب و ملت نہیں دیکھا جانا چاہئے، تب ہی ہمارا ملک ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوگا۔ صرف تعصب اور جانبداری کی بنیاد پر مسلمانوں اور عیسائیوں سے دشمنی، ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے ملک کا نقصان ہوگا، لیکن موجودہ حکومت کا مختلف ایجنڈہ ہے، وہ سب کیلئے یکساں مساوات میں شاید یقین ہی نہیں رکھتی۔ اقلیتی برادری جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی پر حملوں کے درد کو فراموش نہیں کرپائے گی۔ ہم روہت ویمولا کی خودکشی کا دردناک واقعہ بھی نہیں بھول پائے جو اُس وقت پیش آیا جب سمرتی ایرانی ہی مرکزی وزیر انسانی وسائل تھے۔ آج ہم ایک ایسی راہ پر پہنچ گئے ہیں، پتہ نہیں یہاں سے کہا ں جائیں گے ؟ آیا مسلم برادری مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ روک دینے اور پری میٹرک اسکالرشپس صرف 9 ویں اور 10 ویں جماعت کے طلبہ تک محدود کئے جانے کی پابجائی وقف جائیدادوں اور برادری کے دوسرے وسائل کے ذریعہ کرسکتی ہے؟
مسلم برادری کو اپنی نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے اوقافی جائیدادوں کا بہتر انداز میں استعمال کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ حکومت کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنے مخالف اقلیت ایجنڈے کو لاگو کررہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے اور ایسی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں طلبہ کی ہر ممکنہ مدد کی ضرورت ہے۔