مہاتما کے مذہب کا کیا مطلب تھا

,

   

ان کے لئے مذہب قومیت نہیں تھا۔ تمام شہری بلاتفریق عقائد‘ ہندوستان پر ان کا حق تھا
حالانکہ ایک دھرمک ویشناوی گھر انے میں بڑے ہوئے موہن داس راج کورٹ کے الفریڈ ہائی اسکول میں تعلیم کے دوران آخری سال میں ایک ناستک تھے۔

اپنی اٹوبایو گرافی کے الفاظ میں انہوں نے ”ناستک کے صحرا کو پار کردیا“ جو ان خاص تین سالوں (1988-91)کے دوران لندن میں‘ جہاں پر وہ قانون کی پڑھائی کرنے کی تیاری کررہے تھے‘ اس وقت انہوں نے پہلی مرتبہ گیتا پڑھی او رساتھ میں بدھا او راسلام پر نیا عہد نامہ اور کتابوں کا مطالعہ کیا۔

باقی کی ان کی زندگی اس میں ہندوستان کی قومی تحریک کے لیڈر کا دور بھی شامل ہے اس میں گاندھی ایک عقید ت مند‘ سوالات کرنے والے اور رودار ہندو برقرار رہے۔مختلف مذہب رنگ ونسل کی ایک خوبصورت ٹیم سے بھی نوازا گیاتھا۔ جس میں دوراندیش جواہرلال نہرو‘ ونوبا بھاویاسکالر‘ اور ولبھ بھائی پٹیل شامل تھے۔

اس کے علاوہ مفسر قرآن‘ اسکالر اور ہندو مسلم اتحاد کے مجاہد ابولکلام آزاد۔ اور سی راج گوپال چاری جنھوں نے رامائن اور مہابھارت کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنشاد کو آسان کردیااور عبدالغفار خان عقید ت مسلمانوں اور ہندوؤں کے وفادار اورسکھ کامریڈس‘ چارلی انڈرویس‘ گورا‘ سروجنی نائیڈو اور جئے پرکاش نارائن اور ایسے کئی لوگ بھی ان کے فہرست میں شامل تھے۔

گاندھی کے کچھ دستوں اور کئی ہندوستانیوں نے ان کے بنیادی خیالات پیش کئے ہیں۔ جس میں سے ایک وہ فرد جس کا عقیدہ ایک ہندو‘ ایک مسلم‘ ایک عیسائی‘ ایک سکھ‘ ایک یہودی‘ ایک زرتشی‘ ایک جین‘ ایک بدھسٹ‘ ایک ناستک جو کوئی بھی رہے اس کا ہندوستان پر مساوی حق ہے۔

مذہب ایک الگ چیز ہے اور قومی ایک الگ چیز ہے۔ اس کے لئے جنا نے کہاکہ ”سال1940میں حالانکہ اس سے قبل وہ گاندھی سے متفق تھے۔ مسلمان اور ہندو دو اقوام ہیں“ جناح نے اب زوردیا تھا۔

ونائیک ساورکر جیسے ہندو جناح سے متفق ہوئے۔ جنا ح کے پاکستان کے اعلان سے تین سال قبل ساورکر نے احمد آباد نے اعلان کیاتھا کہ ہندواور مسلمان دو اقوام ہیں۔ قادر امطلق کے بارے میں ایک او رگاندھیائی نظریہ تھا۔

وہیں انسانیت مختلف ناموں سے اوپر والے کو پکارتی ہے۔ کیونکہ گاندھی جی اور لاکھوں لوگوں نے یہ گایاہے‘ ایشوار اللہ تیرے نام۔

ان کے وقت سے قبل تحریر مذکورہ لائن گاندھی کے نام سے موسو م ہوگئی جب 2000میں میں بنگلہ دیش کے نان کھالی کے گاؤں میں استفسار کیاتھا کہ تم لوگ گاندھی کے بارے میں کیاجانتے ہو تووہاں کے لوگوں نے ایشوار اللہ تیرے نام گا کر سنایا تھا۔یہ نان کھلی میں گاندھی کے سفر امن کے بعد سے نصف صدی کے بعد کا دور تھا۔