مہاراشٹرا میں بھی انڈیا ’ اتحاد ‘

   

مہاراشٹرا میں بھی انڈیا ’ اتحاد ‘
اترپردیش ‘ ہریانہ ‘ دہلی ‘ گجرات اور گوا کے بعد اب انڈیا اتحاد نے مہاراشٹرا میں بھی نشستوں کی تقسیم پر اپنا اتحاد مکمل کرلیا ہے ۔ حالانکہ ابھی اس اتحاد کی جماعتوں کے مابین نشستوں کی تقسیم کا باضابطہ اعلان باقی ہے تاہم اس سلسلہ میں تمام جماعتوں میںمذاکرات اور مشاورت کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے ۔ مہاراشٹرا میںانڈیا اتحاد میں کانگریس ‘ این سی پی ( شرد پوار ) شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتیں اور پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگھاڑی بھی شامل ہے ۔ اس اتحاد کی جماعتوں کے مابین مذاکرات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور یہ اتفاق بھی کرلیا گیا ہے کہ کون سی جماعت کس نشست سے اور جملہ کتنی نشستوں سے مقابلہ کرے گی ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش حسب روایت کی جا رہی تھی کہ اس اتحاد میںشامل جماعتوںمیں اتفاق رائے نہیں ہوا ہے اور پرکاش امبیڈکر زیادہ نشستوں کیلئے اصرار کر رہے ہیںلیکن یہ سب کچھ درست ثابت نہیں ہوا اور پرکاش امبیڈکر کے نمائندوں کی موجودگی میں اس اتحاد میںشامل جماعتوں کے قائدین نے نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات کا عمل مکمل کرلیا ہے ۔ اس طرح یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا اتحاد کی جماعتوں کی ایک وسیع تر اتحاد کی سمت بتدریج پیشرفت کی جا رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر اس اتحاد کیلئے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ ابتداء میں اترپردیش میں سماجوادی پارٹی سے کانگریس کی مفاہمت سے قبل یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ دونوں جماعتوں کے مابین اتنی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں کہ اب ان میں اتحاد کا امکان باقی نہیں رہ گیا ۔ یہ در اصل منفی اور جھوٹا پروپگنڈہ تھا جس کا مقصد اتحاد کے تعلق سے عوام میں گمراہ کن اطلاعات پھیلانا تھا ۔ جس وقت یو پی میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے مابین نشستوںکی تقسیم پر مفاہمت ہوگئی منفی اور جھوٹا پروپگنڈہ کرنے والوں کیلئے صورتحال تقریبا ناقابل قبول ہی تھی ۔ کئی گوشوںسے یہ کوشش کی جا رہی تھی اور اب بھی کی جا رہی ہے کہ انڈیا اتحاد میں انتشار ہی برپا رہے اور بی جے پی کو انتخابات میں اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع مل جائے ۔
انڈیا اتحاد کو منتشر کرنے کی کوشش میں بہار میں نتیش کمار کو مہا گٹھ بندھن سے علیحدہ کروالیا گیا ۔ تاہم دوسری ریاستوں میں یہ منصوبے کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ نتیش کمار نے اپنی عادت کے مطابق ایک بار پھر سیاسی اتحاد تبدیل کرتے ہوئے اپنی کرسی برقرار رکھی ہے ۔ تاہم دوسری ریاستوں میں بی جے پی اور این ڈی اے کے حلیف ایسی کاوشوں میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ حالانکہ مہاراشٹرا میں اجیت پوار اور ایکناتھ شنڈے کو توڑ تے ہوئے این سی پی اور شیوسینا میں پھوٹ کروائی گئی اور انہیں اپنی صفوںمیں ضرور شامل کرلیا گیا ہے لیکن سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سے این ڈی اے کو کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیںہوسکتا ۔ شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کی سیاسی شناخت مہاراشٹرا میں مستحکم ہے اور پارٹی امیدواروں کو ان ہی چہروں کی بدولت کامیابی ملتی ہے ۔ اسی طرح اب جبکہ ادھو ٹھاکرے ‘ شرد پوار ‘ کانگریس ‘ پرکاش امبیڈکر اور کمیونسٹ جماعتوں میں اتحاد ہوگیا ہے اور نشستوں کی تقسیم پر مفاہمت کیلئے مذاکرات کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے تو اس کو انڈیا اتحاد کیلئے ایک خود آئند امر تصور کیا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹرا اترپردیش کے بعد دوسری بڑی ریاست ہے ۔ یہاں سے لوک سبھا کیلئے 48 ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بی جے پی اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپوزیشن کو کمزور کرنے کی کوششوں پر زیادہ ہی توجہ دے رہی تھی اور اجیت پوار اور شنڈے کی صورت میں اسی کچھ کامیابی ضرور ملی لیکن اب اتحادی جماعتوں نے پھر اپنے وجود کا احساس دلادیا ہے ۔
اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین نے جس سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کی نزاکت کو سمجھا ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ یہ قائدین لوک سبھا انتخابات کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ یہی صورتحال اترپردیش میںبھی رہی تھی ۔ ایک ریاست اب مغربی بنگال کی ہے جہاں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس اور کانگریس میں مفاہمت ہونی باقی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ وہاں بھی بات چیت کا عمل جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں جماعتوں میں مفاہمت کا اعلان کیا جاسکتا ہے ۔ یو پی سے مہاراشٹرا کو تقویت ملی ہے اور اب مہاراشٹرا سے مغربی بنگال میں بھی حلیف جماعتوں میں اتحاد اور مفاہمت کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔