مہنگائی اور غذائی اجناس

   

ملک بھر میں مہنگائی انتہائی عروج کو پہونچ رہی ہے ۔ خود سرکاری اعداد و شمار کے بموجب ملک کی ریٹیل افراط زر کی شرح تقریبا 7 فیصد کے قریب پہونچ گئی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں10 فیصد تک کا اضافہ درج کیا گیا ہے ۔ یہ اضافہ عوام پر ایسے وقت لاد دیا گیا ہے جبکہ عوام کی آمدنی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں۔ روزگار کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ صنعتی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہوتی جا رہی ہیں۔ عوام کی جیبیں پہلے ہی لاک ڈاون کی وجہ سے خالی ہوگئی ہیں۔ اس کے باوجود مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ حکومت ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کے مسئلہ کو یکسر فراموش کرچکی ہے یا اپنی ترجیحات سے اسے عملا علیحدہ ہی کردیا گیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے طور پر مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کچھ بھی کرے کے موقف میں نہیںہے ۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی حکومت نے اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ انہیں اقتدار ملتا ہے تو وہ 100 دن میںقیمتیں کم کر دکھائیں گے ۔ بیرونی ممالک میں پھنسا ہوا کالا دھن واپس لایا جائیگا ۔ عوام کو سالانہ دو کروڑ روزگار دئے جائیں گے ۔یہ سارے وعدے ہوا ہوگئے اور عوام کو دوسرے نزاعی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے ۔ جو وعدے کئے گئے تھے ان پر عمل کرنے کی بجائے نوٹ بندی کی گئی ۔ جی ایس ٹی لاگو کردیا گیا اور پھر اب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ حکومت انتہائی بحران والی صورتحال میں بھی اپنے نزاعی اور اختلافی ایجنڈہ پر پوری طر ح سے عمل پیرا ہے اور عوام کو درپیش مسائل پر کسی گوشے کی توجہ نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے طور پر کوئی اقدام کرنے کے موقف میں نہیںہیں۔ انہیں اپنے وجود کی لڑائی ہی میں الجھادیا گیا ہے ۔ انہیں داخلی جھگڑوںمیں الجھا کر اور انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے حکومت اپنے ایجنڈہ پر عمل کرنے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ عوام کو جو راست مسائل درپیش ہیں ان پر کسی طرح کی توجہ دینے کو حکومت کے پاس نہ وقت ہے اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہے ۔

لاک ڈاون کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ حکومت عوام کو راحت پہونچانے کیلئے اقدامات کرے گی ۔ انہیں ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں گی لیکن حکومت نے عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے اپنے خزانے بھرنے پر زیادہ توجہ دی ہے ۔ پٹرول اورڈیزل کی قیمتیں عالمی منڈی میں کم ہونے کے باوجود عوام کو ان کا فائدہ نہیں پہونچایا گیا ۔ پٹرول اورڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے عوام پر بوجھ کا سلسلہ برقرار رکھا گیا ہے ۔ پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میںیومیہ اساس پر خاموشی سے اضافہ کا سلسلہ جاری ہے اور اس اضافہ کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بھی بڑھنے لگی ہیں۔ جب ان اشیا کی منتقلی کے اخراجات اضافی ہونگے تو ان کی قیمتوں میںاضافہ ہونا فطری بات ہے ۔ حکومت کو ان سارے امور سے عملا کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف عوام پر مسلسل بوجھ عائد کرنے میںمصروف ہوگئی ہے ۔ حکومت کے اقدامات سے عوام کو کسی طرح کی راحت کی امید رکھنا فضول ہی ہوگیا ہے ۔ اب جبکہ خود سرکاری اعدادو شمار میںریٹیل افراط زر کی شرح میں اضافہ کا اعتراف کیا گیا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ غذائی اجناس کی قیمتوںمیں 10 فیصد تک اضافہ ہوا ہے تو حکومت کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ عوام کی آمدنی کم ہوگئی ہے تو وہ کس طرح سے یہ اضافی قیمتیںادا کرنے کے موقف میںہونگے ۔ ان کے حالات میں بہتری لانے کیلئے حکومت کو منصوبہ بندی کرتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قدرے راحت محسوس کرسکیں۔

موجودہ حکومت کے اقدامات سے فی الحال ایسا تاثر مل رہا ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں گم ہے ۔ وہ کسی کے مشورہ کو قبول کرنے تیار نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی رائے کا احترام کرنے کا اس کا کوئی ارادہ ہے ۔ وہ اپنے ہی طور پر اپنی ہی سوچ کے مطابق فیصلے کرنے اور انہیں عوام پر مسلط کردینے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔ حکومت کو اپنے طور پر فیصلے کرنے اور ان پر عمل آوری کرنے کا پورا اختیار ہے تاہم اسے عوام کے بوجھ کا اور ان پر عائد ہونے والی مشکلات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ عوام کو مہنگائی سے راحت دلائے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کیلئے کوئی فارمولا تیار کرے ۔ اپنے خزانے بھرنے کی بجائے عوام کو راحت دینے پر زیادہ توجہ دی جائے ۔ اسی سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔