مہنگائی پر حکومت کی توجہ کیوں نہیں

   

عشق کہتے ہیں جسے نام ہے مجبوری کا
جس نے لوٹا اُسی ظالم پہ محبت آئی
مہنگائی پر حکومت کی توجہ کیوں نہیں
مرکز کی نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ عوامی مسائل کے تئیں اپنی آنکھیں اور کان بند کرچکی ہے بلکہ وہ عوام پر بوجھ ڈالنے اور ان کی کمر توڑنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگئی ہے ۔ حکومت کی جانب سے کسی بھی مسئلہ پر عوام کو راحت دینے کیلئے کوئی عملی اور ٹھوس اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں اور عوام کو مہنگائی کی مار کھانے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ عوام پر بوجھ ڈالنے والوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے کہ وہ لوٹ مچاتے رہے ہیں۔ آج سارے ملک میں مہنگائی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔ عوام کے مسائل اور پریشانیوں میں اضـافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ لوگ اپنے گھر کے بجٹ کو سنبھالنے کی کوششوں میں اتنے الجھا دئے گئے ہیں کہ وہ حکومت سے سوال کرنے کے موقف میں بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں مودی حکومت اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھاتی جا رہی ہے اور من مانی فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں۔ عوام کو جوابدہی کا تصور ہی ختم کردیا گیا ہے اور اگر اپوزیشن کی جانب سے کبھی کبھار کوئی سوال کیا جاتا ہے اور اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرکے خاموش کروادیا جاتا ہے یا پھر مقدمات درج کرکے الجھا دیا جاتا ہے ۔ آج ملک میں مہنگائی کی وجہ سے عوام کسی اور جانب سوچنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ بنیادی اور ضرورت کی اشیاء بھی عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ ترکاری سے لے کر تیل تک ‘ دال سے لے کر پٹرول تک ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے ۔ ادویات کی قیمتوں پر بھی کوئی کنٹرول دکھائی نہیں دیتا اور دودھ کی قیمتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ۔ جہاں تک فیول ( پٹرول اور ڈیزل ) کی قیمتوں کا سوال ہے تو یہ تو آسمان کو چھونے لگی ہیں اور ان کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے جہاں خود کو الگ تھلگ کرتی رہی ہے وہیں اب وہ فیول کی قیمتوں سے بھی خود کو بظاہر لا تعلق کئے ہوئے ہے لیکن فیول پر اضافی اکسائز ڈیوٹی عائد کرتے ہوئے اپنے خزانے بھرنے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی ۔ وقفہ وقفہ سے اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتی رہتی ہے ۔
آج سارے ملک کا جو حال ہے وہ انتہائی گہما گہمی اور افرا تفری والی تصویر پیش کرتا ہے ۔ حکومت کے پاس عوامی مسائل پر توجہ دینے کیلئے وقت نہیں ہے یا پھر حکومت اس کو ضروری نہیں سمجھتی ۔ سرکاری تیل کمپنیاں بین الاقوامی مارکٹ کی قیمتوں کا عذر پیش کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہیں۔ حکومت اکسائز ڈیوٹی کے نام پر اپنے خزانے بھرنے میںلگی ہوئی ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کالا بازاری عناصر من مانے انداز میں بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ دودھ اور ادویات تک عوام کو واجبی قیمتوں پر دستیاب نہیں ہیں۔ عوام کیلئے دال چاول کا حصول تک مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ لوگ کسی طرح اپنی گذر بسر کرر ہے ہیں۔ کورونا وائرس کے لاک ڈاون کے بعد تجارت اور کاروبار یکسر متاثر ہو کر رہ گیا ہے ۔ چھوٹے موٹے تاجروں کیلئے اپنا گذر بسر بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ ان کا کاروبار تقریبا بند ہوگیا ہے ۔ لوگوں کی ملازمتیں تک ختم ہوگئی ہیں۔ آج کروڑ ہا لوگ ملازمتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایک ریاست سے دوسری ریاستوں میں آکر کام کرنے والے اپنے آبائی مقامات کو پہونچ چکے ہیں اور وہاں ان کیلئے روزگار کا حصول مشکل ہوگیا ہے ۔ حکومتیں اس سلسلہ میں اقدامات کا اعلان تو کرتی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں درکار تعداد میں لوگوں کو راحت نہیں مل پا رہی ہے ۔ ایسے میں مہنگائی نے بھی رہی سہی کسر پوری کردی ہے اور ضرورت کی تقریبا ہر شئے عوام کی پہونچ اور رسائی سے مسلسل باہر ہوتی جا رہی ہے ۔
قومی اہمیت کے حامل جو مسائل ہیں ان پر توجہ کے ساتھ حکومت کو مہنگائی اور ملازمتوں کے مسئلہ پر بھی فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک جامع حکمت عملی کیس اتھ مہنگائی پر قابو اپنے کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرتے ہوئے مارکٹوں کے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ اس سے روزگار کی فراہمی کا مسئلہ بھی کچھ حد تک بہتر ہوسکتا ہے ۔ سرکار ی تیل کمپنیوں کو بھی حکومت ایک فارمولے کے تحت قیمتوں کے معاملے میں پابند کرسکتی ہے اور اسے ایسا کرنا بھی چاہئے ۔ فیول کی قیمتوں کو قابو سے باہر ہونے سے بچاتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کو روکا جاسکتا ہے ۔ عوام کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے حکومت کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔