میڈیا کے دوہرے معیارات

   

کسی بھی ملک کی ترقی اور جمہوریت کے فروغ کیلئے میڈیا کا غیر جانبدار اور آزاد رہنا انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ میڈیاکی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام اور حکومت کے درمیان ایک رابطہ اور پل کا کام کرے ۔ جو عوام کے مسائل ہوتے ہیں ان کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے ۔ ملک کے مفادات اور سکیوریٹی پر بھی میڈیا کا اہم رول ہوتا ہے اور حکومت کے اقدامات اور پالیسیوں میں خامیوںاور نقائص کو منظر عام پر لانا بھی میڈیا کا فریضہ ہوتا ہے ۔ تاہم ہندوستان میں ایسا لگتا ہے کہ میڈیا اب برسر اقتدار جماعت اور حکومت کا ترجمان ہی بن کر رہ گیا ہے ۔ صرف ایک ایجنڈہ کو پروان چڑھانے اور سماج میں نفرتوں کوفروغ دینے میں میڈیا سرگرم ہے ۔ اس کیلئے میڈیا کی جانب سے عوام کے مسائل کو بھی نظر انداز کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہاہے ۔ عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ عوام کے ذہنوں پر ایک مخصوص سوچ اور ایجنڈہ کو مسلط کرنے کی باضابطہ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کا میڈیا خود کو محب وطن یا قوم پرست قرار دینے سے تھکتا نہیں ہے اس کے باوجود میڈیا قومی اور سکیوریٹی پہلو سے اہمیت کے حامل معاملات پر بھی دوہرے معیارات اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ وہ محض اپنے منہ میاں مٹھو بننے میںمصروف ہے اور قومی سلامتی کے مسائل پر بھی خاموشی اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ میڈیا میں ان دنوںسابق گورنر جموںو کشمیر ستیہ پال ملک کے انکشافات ہونے چاہئے تھے ۔ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ پلوامہ حملے میں جو فوجی جوان شہید ہوئے ہیں ان کو حکومت کی جانب سے اور وزارت داخلہ کی جانب سے ہوائی جہاز فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا تھا ۔ جب خود گورنر نے اس مسئلہ کو وزیر اعظم سے رجوع کیا تو انہوں نے گورنر سے کہا تھا کہ وہ اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کریں۔ یہ ایسے سنگین انکشافات ہیں جن پر میڈیا چینلس میں تفصیلی اور سیرحاصل مباحث کرواتے ہوئے رائے عامہ کو ہموار کیا جانا چاہئے تھا ۔ عوام میں یہ مسائل موضوع بحث بنائے جانے چاہئے تھے تاہم ایسا نہیں کیا جا رہا ہے ۔
ہمارا میڈیا اس بات پر مباحث کرواتا ہے کہ شردھا واکر کا بوائے فرینڈ آفتاب پونا والا تھا ۔ وہ کسی کے مذہب کو جھنجھوڑتے ہوئے اس کو ملزم ٹہرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ ہمارا میڈیا اس بات پر خوشی مناتا ہے اور اسٹوڈیو میں بیٹھ کر جشن منایا جاتا ہے کہ عتیق احمد کو پولیس تحویل اور کیمروں کے سامنے قتل کردیا جاتا ہے ۔ اس کو مافیا کو ختم کرنے کا نام دیا جاتا ہے لیکن قوم پرستی کا دم بھرنے والا میڈیا حکومت سے یہ سوال کرنے سے گھبراتا ہے یا پھر وہ حکومت کی چاپلوسی میں مصروف ہے کہ ہمارے بہادر سپاہیوں اور فوجی جوانوں کو ہوائی جہاز کیوںفراہم نہیں کئے گئے تھے ۔ یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ وزیر اعظم نے اس انتہائی سنگین سکیوریٹی کوتاہی پر گورنر کو خاموش رہنے کو کیوں کہا تھا ۔ وزارت داخلہ سے یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ اس نے عوام کے پیسے والے ہوائی جہاز کیوں ہمارے بہادر سپاہیوںاور فوجی جوانوں کوفراہم نہیں کئے گئے تھے ۔ اس غلطی کیلئے کون ذمہ دار ہے ۔ یہ سوال نہیں پوچھا جاتا کہ کس کی ایماء پر ایسا کیا گیا ۔ یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آخر ہوائی جہاز فراہم نہ کئے جانے کی وجہ کیا تھا اور اس کے پس پردہ ذمہ دار کون ہیں اور اس کے مقاصد کیا تھے ۔ کیا اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے تو یہ سارا کچھ نہیں کیا گیا ؟ ۔ یہ ایسے سوال ہیں جو غیر جانبدار اورآزاد میڈیا کو حکومت سے پوچھنے چاہئیں لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا ہے اور اس کے بدلے حکومت سے سوال کرنے اور حقائق کی تلاش کرنے والوںکو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیںر کھی جا رہی ہے ۔
قوم پرستی کا دم بھرنے والا میڈیا حکومت سے سوال کرنے والوں کو تو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتا لیکن حکومت سے سوال کرنے کا جب وقت آتا ہے نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دینے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔ یہ میڈیا کے دوہرے معیارات اور ڈوغلا پن ہے ۔ اس سے میڈیا کے کھوکھلے پن کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ عوام میں یہ رائے ضرور بن رہی ہے کہ ہندوستان کا میڈیانہ آزاد رہا ہے اور نہ غیر جانبدار رہا ہے ۔ وہ اقتدار کا دلال بنا ہوا ہے ۔ یہ میڈیا قوم پرستی کا دعوی ضرور کرتا ہے لیکن جب قوم پرستی کا فرض اور ذمہ نبھانے کی بات آتی ہے تو وہ خوف کا شکار ہوجاتا ہے اوردوہرے معیارات اختیار کرنے لگتا ہے ۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔