نئی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں شاہانہ تقریب کی جھلک

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

آجکل پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں سینگول رکھنے جانے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ مرکزی وزراء اور بی جے پی قائدین کے اس سے متعلق بیانات کا کافی چرچہ ہے۔ واضح رہے کہ سینگول دراصل ایک چھڑی ہے یہ جھڑی ملک کے پہلے وزیر اعظم کے ذخیرہ کے حصہ کے طور پر الہ آباد میوزیم میں رکھی گئی تھی اور پھر اسے سنہری چھڑی (سنہری اسٹیک) کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا لیکن مودی اور ان کی ٹیم اس سینگول کی جو تشریح کررہی ہے اس بارے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ تروولور، ایلانگو، ادیگل، اویار اور سنگم شعرا اگر ان کی تشریح اور وضاحتوں کو سن لیں تو وہ اپنے قبور میں بے چین ہو اٹھیں گے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کے ترجمانوں نے بھی ایسی تشریح کی کہ سر دھنکنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں سینگول عارضی اقتدار کی علامت ہے۔ ان لوگوں نے یہاں تک کہا کہ سینگول اقتدار کی منتقلی کی علامت ہے۔ قدیم ہندوستان میں جو ہندو پنڈت ہوا کرتے تھے وہ اقتدار کی منتقلی کے وقت سینگول (سنہری چھڑی) اقتدار پر فائز ہونے والے راجہ یا حکمراں کے حوالے کرتے تھے یا پھر سابق حکمراں نئے حکمراں کو وہ چھڑی حوالے کیا کرتا تھا آپ کو بتادیں کہ 28 مئی 2023 کو کس طرح تاریخی اور ایک اخلاقی اصول کو بڑی بے شرمی کے ساتھ توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔ آپ کو یہ یاددلانا ضروری ہیکہ خود وزیر اعظم نے یہ سینگول کے بارے میں اظہار خیال کیا کہ سینگول کو پریاگ راج کے آنند بھون میں واکنگ اسٹک کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ ان کی حکومت نے اسے آنند بھون سے باہر نکال لائی (حالانکہ حقیقت یہ ہیکہ 4.6 فٹ لمبے سینگول کو نیشنل میوزیم سے پارلیمنٹ کے نئے احاطے میں لایا گیا، نیشنل میوزیم میں یہ نومبر 2022 سے رکھی گئی ہے) بہرحال جس وقت نئی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی اس وقت تاریخ اور اخلاقی اصولوں کو کس طرح بے شرمی سے مسخ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مظاہرہ 28 مئی 2023 کو ہوا۔ بگل بجانے والوں نے بگل بجایا درباریوں نے حکمراں کی ہاں میں ہاں ملائی اس کی چاپلوسی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ مخالفین نے حکمراں پارٹی پر طنز و طعنوں کے تیر برسائے۔ ترقی ایسا لگ رہا تھا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی یہ افتتاحی تقریب نہیں بلکہ کسی راجہ کی تقریب تاجپوشی ہو اور جس میں لارڈ ماونٹ بیٹن اور سی راجگوپال چاری (راجہ جی) کو اس شاہی تقریب کے مشاہدہ کے لئے طلب کیا گیا ہو جو ایک جمہوری ملک میں ہو رہی ہے۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہیکہ اس تقریب میں کئی سوالات ادھینا ماس (مٹھوں) کے سربراہوں نے بھی شرکت کی بلکہ انہیں بطور خاص اس اس سیکولر تقریب کو مذہبی رنگ دینے یا مذہبی تعصب سے آلودہ کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ جیسے ہی لوگوں نے اپنے ٹیلی ویژن اسکرینس پر تقریب کا مشاہدہ کیا انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ 25 جولائی کو صدر دروپدی مرمو کی جو تقریب حلف برداری منعقد ہوئی تھی اُس تقریب میں اور اس تقریب میں جہاں صرف وزیر اعظم توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے کتنا تضاد پایا جاتا ہے اور ایک بات یہ کہ خاص طور پر کرناٹک کے عوام کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہوگی اور وہ ضرور سونچنے لگے ہوں گے کون کس کو اقتدار حوالے کررہا ہے۔
شاعر نے سینگول کی تعریف و تشریح کی :
31 قبل مسیح کے ایک تامل شاعر و فلسفی تروولورو نے اپنا ایک غیر معمولی کلام لکھا جو مشہور و معروف تروکورل میں موجود ہے اور اس کلام کو دولت نامی حصہ میں شامل رکھا گیا۔ تروولورو نے اُس میں دو ابواب شامل کئے جن کا عنوان سینگو نمائی (رحمدل راجہ) اور کوڈونگو نمائی (ظالم راجہ) تھا اور انہیں 546 ویں شعر میں پڑھا جاسکتا ہے ۔
ویلندری ویندری تھروواتھو مناون
کول ادووم کوڈانو اینین
کول دراصل راجہ ہے مذکورہ شعر کا مطلب یہ ہیکہ یہ کوئی نیزہ نہیں ہے جو حکمراں کو فاتح بناتا ہے اسے فتح دلاتا ہے۔ یہ کول Sceptre ہے لیکن شاعر کے آخری تین الفاظ پرنشان لگائیں وہ کول ہے ۔ وہ کول جو جھکنے والا نہیں، عصا (شہری چھڑی) سیدھا ہونا چاہئے اسے کسی بھی طرح جھکا ہوا نہیں ہونا چاہئے۔ یہی سوچ وزیر اعظم کے لئے گئے حلف میں بھی موجود ہے۔ جیسے ’’میں آئین اور قانون کے مطابق ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ بلاخوف و خطر بنا جانبداری سلوک روا رکھوں گا کیول اصل میں حق پر مبنی حکمرانی کی علامت ہے، اقتدار کی نہیں، کول کبھی نہیں جھکتا بلکہ ظالم حکمرانوں کو جھکاتا ہے۔ ’’مذکورہ شعر میں یہ بھی کہا گیا کہ جو حکمراں اس سنہری چھڑی کو تھامتا ہے وہ دیانتداری اور سچائی کے ساتھ حکمرانی کرتا ہے۔ تھروالوارو سینگول کو ایک اچھے حکمراں کی چار خوبیوں میں سے ایک خوبی کے طور پر پیش کیا۔ مثلاً چیاریٹی، رحم، صحیح حکمرانی اور کمزوروں کا تحفظ یعنی غریبوں کے حقوق کا تحفظ ہر حکمراں میں یہ چار خوبیاں پائی جانی چاہئے اگر کسی حکمراں میں یہ خوبیاں نہ ہوں تو وہ حکمراں عوام کے دل میں اپنی جگہ نہیں بناسکتا۔ ایک اور باب میں شاعر نے کوڈونگو تھائی کے عنوان سے ایک اور باب پیش کیا جو حقیقت میں سینگونمائی کا متضاد ہے جسے ظالمانہ و غیر منصفانہ حکمرانی اور حکمراں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک سنگم شاعر نے افسانوی چولاراجہ کری کالن کی زبردست ستائش کی اور یہ ستائش ان کی ارنوڈو پنرنڈا ترناری سینگول کے لئے کی گئی اس کا مطلب یہ کہ سنگم شاعر نے چولاراجہ کی دانشمندانہ حکمرانی کی تعریف کی جو اخلاقیات و اصولوں پر مبنی تھی ایک اور شاعر نے راجہ کی تعریف میں لکھا کہ اس نے کسانوں کی خوشحالی کو یقینی بنایا۔ کسان وہ ہیں جو لوگوں کے لئے اناج اگاتے ہیں اور اچھے حکمراں کسانوںکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایک جین راہب نے سلاپتھی کرم نامی کلام میں اس حکمراں کی مذمت کی اسے تباہی کا ذمہ دار قرار دیا جوسپنوگل کو جھکانے کا باعث بنا۔ اوائیہ نامی ایک عوامی شاعر نے بہت ہی سادہ و سلیس زبان میں تحریر کردہ اپنی نظم میں کہا تھا کہ جب بند بڑھتا ہے تو پانی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔