نئے صدر امریکہ جوبائیڈن

   

صدر امریکہ کی حیثیت سے جو بائیڈن کی حلف برداری کے بعد مسلم ممالک کے خلاف مغربی پابندیوں کا خاتمہ ، پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے ، کورونا وبا کے دوران غیر ملکی طلبہ کی بے دخلی روکنے اور تمام وفاقی عمارتوں میں ماسک کی پابندی کے احکامات جاری کئے جارہے ہیں۔ سب سے اہم فیصلہ امریکی ایمیگریشن قانون میں بڑی تبدیلی ہوگا ۔ اس سے 11 ملین افراد کو امریکی شہریت حاصل ہونے کے لیے 8 سالہ پروگرام پر عمل کیا جائے گا جو لوگ غیر قانونی طور پر برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں انہیں بڑی راحت ملے گی ۔ خاص کر ہندوستانیوں کے لیے ایمیگریشین بل ان کی دیرینہ آرزوں کی طرف پیشرفت ہوگی ۔ صدر کو اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لیے مرحلہ وار اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ان کے پیشرو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے کئی ایگزیکٹیو آرڈرس کو واپس لینے کا عمل ہی جوبائیڈن کے انتخابی وعدوں کی تکمیل ہوگی ۔ لاطینی امریکیوں کی بڑی تعداد نے جوبائیڈن کو اس امید کے ساتھ ووٹ دیا تھا کہ وہ ایمیگریشن پالیسیوں میں نرمی لائیں گے ۔ گذشتہ چار سال کے دوران ٹرمپ کی سخت ترین پالیسیوں نے مایوسی کی لہر پیدا کردی تھی ۔ ایک منتخب حکومت کو اقتدار پر آنے سے روکنے کے لیے ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو اکسا کر امریکی جمہوریت پر حملہ کیا تھا ۔ اس واقعہ کے اثرات جوبائیڈن کی حلف برداری تقریب پر چھائے رہے ۔ نتیجہ میں امریکی ریاستوں میں ہائی الرٹ کردیا گیا تھا ۔ امریکہ کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے جوبائیڈن کو ان تمام غلطیوں کو درست کرنا ہے جو کہ ٹرمپ نے کی تھیں ۔ جوبائیڈن کی نئی ٹیم میں ہندوستانی نژاد کملاہیرس نائب صدر امریکہ ہیں ۔ اور ان کے ساتھ 15 ہندوستانی نژاد امریکی شہری بھی ہیں جنہیں جوبائیڈن نظم و نسق میں شامل کیا گیا ۔

امریکہ کے نئے صدر کے دور میں ہندوستانیوں کو قابل فخر ذمہ داریاں پوری کرنے کا موقع ملے گا ۔ جوبائیڈن کی ٹیم میں شامل کئے گئے ہندوستانی نژاد امریکیوں کو امریکی کانگریس نے بھی توثیق کی ہے ۔ نئے صدر امریکہ کو سب سے کم سینیٹر کا اعزاز حاصل ہونے کے بعد اب سب سے معمر صدر امریکہ کا اعزاز بھی ملا ہے ۔ بائیڈن کی ٹیم نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور یہ موقع ساری دنیا کے ممالک کے لیے اہم ترین ہے ۔ خاص کر امریکہ کے عالمی عزائم کی روشنی میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو نئی سطح اور بلندی بھی ملتی نظر آرہی ہے ۔ کیوں کہ ٹرمپ نے امریکہ کی عالمی قیادت کے روایتی اصولوں سے ہٹ کر کام کیا تھا ۔ اب جوبائیڈن کے آنے کے بعد سب کچھ تبدیل ہوگا ۔ بائیڈن کی ٹیم میں شامل ارکان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو وسیع تر بنانے کے لیے محنت کرنی ہوگی ۔ بائیڈن نے اپنی ٹیم میں تجربہ کار افراد کو شامل کیا ہے جو ان کے ویژن کو پورا کرنے میں مدد کریں گے ۔ گذشتہ چار دہوں کا سیاسی تجربہ رکھنے والے 78 سالہ بائیڈن کو امریکہ کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کئی چیلنجس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ان کے تجربات اور ان کی قابلیت ہی امریکیوں کو مزید ایک بہترین زندگی گذارنے کا موقع فراہم کرے گی ۔ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی کارنامہ کرنے یا مطلوب مقاصد کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے ۔ ان کے ساتھ 56 سالہ کملا ہیرس بھی نائب صدر کی حیثیت سے حلف لے چکی ہیں لیکن ان کا رول حکومت کی ربر اسٹامپ حامی کی حیثیت سے رہے گا یا انہیں بھی اپنے تجربات کو بروے کار لانے کا موقع ملے گا یہ وقت ہی بتائے گا ۔ امریکہ کی سیاست میں گذشتہ سال کے دوران جو کچھ اتھل پتھل ہوئی اس کو ایک خراب دور سے تعبیر کیا جائے گا ۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے درمیان نظریاتی لڑائی نے ٹرمپ کو ان کے انجام پر پہونچا دیا ۔ اب امریکہ کو نئی صبح کے ساتھ اپنے داخلی اور خارجہ امور میں بہتری اور تبدیلی لاتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ۔ ٹرمپ کے دور میں ہند ۔ امریکہ تعلقات میں دو اہم تبدیلیاں بھی آئی تھیں کہ تجارت اور دفاعی امور سیکوریٹی تعاون میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی تھی لیکن اب توقع کی جاتی ہے کہ بائیڈن اور ان کی ٹیم ہندوستان کے لیے باہمی اختلافات کو دور کر کے دفاعی تعاون اور تجارت پر تعلقات کو اعلیٰ سطح پر لے جائے گی ۔۔