نرگس ایک افسانوی شخصیت

   

وینکٹ پارسا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جاریہ سال 3 مئی کو ہندی سنیما کی مشہور و معروف اور مقبول ترین اداکارہ نرگس کی 40 ویں برسی ہے۔ 52 سال کی عمر میں لوگوں کی جو محبت، تعریف و ستائش نرگس کے حصہ میں آئی ہو، شاید ہی کسی اور کے حصہ میں آئے۔ نرگس کی پیدائش یکم جون 1929ء کو ہوئی اور 3 مئی 1981ء کو وہ اس دارفانی سے کوچ کرگئی۔ فلمی صنعت میں نرگس ایک حرکیاتی شخصیت کے طور پر ابھری اور وہ ایک پرکشش شخصیت کی مالک تھیں، جن کی شخصیت پر لوگ رشک کیا کرتے۔ نرگس دی لیڈی اِن وائلٹ کی حیثیت سے بھی جانی جاتی تھیں،اور فلم انڈسٹری کی وہ واحد اداکارہ ہیں جنہیں ہندوستانی سنیما کی ’’خاتون اول‘‘ کہا گیا۔ ان کی جادوئی پراثر شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی ’’پہلی مرتبہ‘‘ ان کے نام سے جڑے گیا۔ مثال کے طور پر نرگس ہندوستانی فلمی صنعت کی پہلی اداکارہ تھیں جنہیں پدم شری ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس وقت ان کا کیریئر نقطہ عروج پر تھا۔ نرگس کو ہندوستان کی پہلی ایسی اداکارہ ہونے کا بھی اعزاز ہے جنہیں کارلوبی ویری میں بہترین اداکارہ کا بین الاقوامی ایوارڈ حاصل ہوا۔ نرگس ہندوستان کی پہلی اداکارہ ہیں جنہیں نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی ایک اہم شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا خاص طور پر سابق سوویت یونین میں لوگ انہیں بے پناہ چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ نرگس کی شخصیت اپنے آپ میں ایک منفرد اور جداگانہ حیثیت رکھتی تھی جس کے نتیجہ میں وہ اپنی ہی حیات میں افسانوی حیثیت حاصل کرچکی تھیں۔ سابق سوویت یونین میں ہندوستانی سفیر رہ چکے کے پی ایس مینن نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ راجکپور کی شہرۂ آفاق فلم ’’آوارہ‘‘ سوویت یونین میں اس قدر کامیاب رہی کہ اگر وہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کا نام راجکپور رکھا جاتا جبکہ لڑکی پیدا ہوتی تو یقینا اس کا نام نرگس رکھ دیا جاتا۔

ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے 1954ء میں منعقدہ ماسکو فلم فیسٹیول میں شرکت کیلئے 14 رکنی ہندوستانی وفد روانہ کیا۔ اس وفد میں دوسری اہم شخصیتوں کے ساتھ نرگس، راجکپور، دیوآنند اور بلراج ساہنی شامل تھے۔
نرگس کا جہاں تک تعلق ہے، وہ بھی تنازعات سے نہیں بچ پائیں۔ ایک عظیم شخصیت کی زندگی پر تنازعات کا اثر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ نرگس ایک حرکیاتی شخصیت کی مالک تھیں، ان کا کیریئر بھی رنگارنگ رہا۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی ایک راز تھی۔ جس طرح تنازعات ان کی زندگی کا حصہ تھے، اسی طرح رنگارنگی بھی ان کے کیریئر کی پہچان تھی۔ حد تو یہ ہے کہ تنازعات نے قبر تک ان کا پیچھا کیا کیونکہ جب ان کا انتقال ہوا، تب یہ تنازعہ پیدا ہوا کہ آیا نرگس کی ہندو رسم و رواج کے مطابق آخری رسومات انجام دی جائے یا اسلامی طور طریقے سے ان کی تدفین عمل میں لائی جائے۔ تب ان کے شوہر سنیل دت نے اپنی محبوب بیوی کی آخری رسومات ہندو رسم و رواج کے بجائے اسلامی رسومات کے مطابق انجام دیں جس پر ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ اپنی زندگی میں ہی نرگس نے مندر کا بھی دورہ کیا اور اسی جذبہ کے ساتھ درگاہ پر بھی پہنچیں۔ نرگس اور تنازعات ایسا لگتا تھا کہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ وہ پیدائش سے ہی تنازعات میں گھری رہیں۔ ان کی ماں جدن بائی ایک درباری رقاصہ تھیں اور ایسے میں نرگس کے مخالفین نے ان کے والدین سے متعلق تنقید کرنے کا موقع کبھی نہیں گنوایا۔ مخالفین اکثر نرگس کو ان کے والدین کے تعلق سے طعنے دے کر ذلیل و رسواء کرنے کے خواہاں رہا کرتے تھے اور اس سلسلے میں بہت کوشش کرتے۔ تنازعات کا جہاں تک سوال ہے۔یہ نرگس کے سیاسی تعلقات سے لے کر ان کے پیشہ ورانہ شخصی زندگی تک پھیلے ہوئے تھے۔ نرگس کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا، اس کے بارے میں کبھی خوف میں مبتلا نہیں ہوتی تھیں چاہے وہ اندرا گاندھی کے ساتھ ان کے تعلقات کا معاملہ ہو، 1975-77ء کے درمیان نافذ کردہ ایمرجنسی کی تائید کا معاملہ ہو۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا، بہ بانگ ِ دہل کیا۔ نرگس اور راجکپور کی جوڑی بہت کامیاب سمجھی جاتی تھی۔ اس جوڑی کو جادوئی جوڑی کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں ان کی شادی سنیل دت سے ہوئی۔ 1980ء میں صدرجمہوریہ نے جن شخصیتوں کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیا تھا، ان میں نرگس بھی شامل تھیں۔ راجیہ سبھا میں اپنی پہلی تقریر کے ذریعہ انہوں نے نہ صرف فلمی صنعت بلکہ ہندوستانیوں کے دل جیت لئے۔ خاص طور پر ہندوستان کو قابل رحم حالت میں پیش کرنے پر ستیہ جیت رے کو انہوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ نرگس کا استدلال تھا کہ ستیہ جیت رے اپنی فلموں کے ذریعہ ہندوستان کی جو خراب تصویر پیش کرتے ہیں، وہ غلط ہے اور وہ جو کچھ بھی پیش کرتے ہیں، وہ ہندوستان کی حقیقی تصویر نہیں ہے۔ نرگس کے اس طرح کے بیانات پر اس وقت ہنگامہ برپا ہوگیا تھا، لیکن نرگس نے ان تمام حالات کا مثالی حوصلہ مندی اور جرأت کے ساتھ سامنا کیا۔ اس قسم کے تنازعات میں گھرے رہنے اور تنقیدوں کا نشانہ بننے کے باوجود نرگس نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ حالات کا بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ امریکی ناول نگار، ادیب و صحافی اور اسپورٹس مین ایرنس ہیمنگ وے نے حوصلہ و جرأت مندی کو “Grace under stress” قرار دیا ہے۔ اس طرح نرگس کے معاملے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے۔ نرگس نے حالات کا دیانت داری ، سنجیدگی، سچائی اور دیدۂ دلیری سے مقابلہ کیا ہے اور انہوں نے کبھی حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا اور تنازعات میں منہ نہیں موڑا۔ یہی ان کے مستحکم کردار کی علامت تھی اور ایسا کردار شاذ و نادر ہی لوگوں میں دیکھا جاتا ہے۔ نرگس ہمیشہ اپنے موقف پر اٹل رہی ۔

ستیہ جیت رے پر تنقید
صدرجمہوریہ کی جانب سے راجیہ سبھا کیلئے نامزد کئے جانے کے بعد 3 اپریل 1980ء کو نرگس نے اپنی پہلی تقریر کے ذریعہ عملاً ایک بڑا ہنگامہ برپا کردیا۔ دراصل نرگس نے ستیہ جیت رے کو ہندوستان کی غربت کا پھیری والا قرار دیا کیونکہ ستیہ جیت رے اپنی فلموں میں ہندوستان کی غربت کو بہت زیادہ پیش کیا کرتے تھے اور نرگس کا موقف تھا کہ ستیہ جیت رے اپنی فلموں میں ہندوستان کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، وہ حقیقت سے بعید ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ ستیہ جیت رے جو چیزیں اپنی فلموں میں پیش کرتے ہیں، وہ سارے علاقے تو دور کی بات ہے، سارے بنگال میں بھی دیکھی نہیں جاتی۔ اور ہندوستان میں غربت کے تعلق سے وہ جو کچھ بھی پیش کرتے ہیں، وہ درست تناظر میں نہیں ہوتا۔ نرگس کا یہ ماننا تھا کہ ستیہ جیت رے کی فلمیں مغرب میں اس لئے مقبول ہوتی ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ ہندوستان کو انتہائی ابتر حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ نرگس نے راجیہ سبھا میں اپنے پہلے خطاب کے دوران ستیہ جیت رے پر شدید تنقید کرنے سے نہ ہچکچاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ستیہ جیت رے صرف ایک رے (کرن) ہے، سورج نہیں۔ نرگس کا یہ احساس تھا کہ ستیہ جیت رے اپنی فلموں میں ہندوستان کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، اسے بیرون ملک حقیقی سمجھا جاتا ہے، جبکہ وہ حقیقت سے بعید ہے اور ہندوستان کی صورتحال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ یہی کہتی کہ ہندوستان میں غربت کی تصاویر برآمد کرنے کے سواء کچھ نہیں جبکہ ستیہ جیت رے جدید ہندوستان میں ہوئی ترقی اور مختلف پیشوں میں ہوئی پیشرفتوں کو نظرانداز کرتے ہیں، اگر وہ اپنی فلموں میں غربت دکھاتے ہیں، تو پھر انہیں یہ بھی دکھانا چاہئے کہ جدید ہندوستان کس قدر ترقی کرچکا ہے۔ نرگس کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہے، لیکن جب وہ بیرونی ممالک کے دورہ پر جاتی ہیں اور وہاں اکثر لوگ جب یہ پوچھتے ہیں آیا ہندوستان میں اسکولس اور گاڑیاں ہیں، تب وہ بہت شرم محسوس کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر کوئی بیرونی باشندہ مجھ سے یہ کہتا کہ آپ لوگ کس طرح کے گھروں میں رہتے ہیں، مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میں جواب دے رہی ہوں کہ ہم درخت کے اوپر رہتے ہیں۔ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب شیام بنیگل اور ان کے قبیل کے دوسرے لوگ نرگس پر مسلسل تنقیدیں کرنے لگے۔ حالانکہ نرگس نے جو دلائل پیش کئے تھے، ان کا وہ جواب دینے سے قاصر تھے۔ ایسے میں وہ اخلاقی طور پر اس قدر گر گئے کہ انہیں والدین کے پس منظر سے متعلق طعنے دینے لگے اور یہاں تک کہا کہ نرگس، کوٹھے والی کی بیٹی ہے۔جہاں تک نرگس کا معاملہ تھا ، وہ ملی جلی تہذیب کی نمائندہ تھی اور یہ تہذیب انہیں پیدائش سے ہی ملی تھی۔ نرگس کے والد ہندو اور ماں مسلمان تھی اور انہوں نے خود سنیل دت سے شادی کی جو ہندو تھے۔ نرگس نے کانونٹ میں تعلیم حاصل کی اور ان کا کلچر رکھ رکھاؤ ہندوستانی روایات کی ترجمانی کرتا تھا اور وہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی ایک نمائندہ کی حیثیت سے ابھرنے میں کامیاب رہی۔ نرگس نے اجنتا آرٹس کے قیام میں اپنے شوہر سنیل دت کی بھرپور مدد کی۔ اجنتا آرٹس نے ’’مجھے جینے دو ‘‘ اور ’’یادیں‘‘ جیسی فلمیں شائقین کو دی ہیں۔ وہ اجنتا آرٹس اسٹیج ٹروپ سے بھی وابستہ رہیں جو سرحدی علاقوں میں تعینات فوجی جوانوں کیلئے تفریحی پروگراموں کا اہتمام کرتا تھا۔ نرگس انڈین موشن پکچرس پروڈیوسر اسوسی ایشن کی صدر بھی تھیں۔ انہوں نے خود کو سماجی کاموں سے بھی جوڑے رکھا تھا ۔ خاص طور پر اسپیاسٹک سوسائٹی آف انڈیا، نابیناؤں کیلئے قائم کی گئی تنظیم مینا کماری میموریل سے وہ وابستہ تھیں۔ انہوں نے ایکیبانا انٹرنیشنل چلڈرنس سوسائٹی آف انڈیا اور انڈو سوئٹ کلچرل سوسائٹی کیلئے بھی کام کیا۔ انڈو سوئٹ کلچرل سوسائٹی نے حیدرآباد میں واقع باغ عامہ کے اندرا پریہ درشنی آڈیٹوریم میں خصوصی تقریب منعقد کرکے انہیں ISCUS کی تاحیات اعزازی رکنیت عطا کی۔ اس کے لئے وہ خود حیدرآباد آئی تھیں۔ اس پروگرام کے بعد نرگس نے گن فاؤنڈری علاقہ میں لیپاکشی ایمپوریم جاکر کچھ خریداری بھی کی۔ نرگس بیک وقت ایک افسانوی اداکارہ، ایک متحرک پارلیمنٹیرین اور ایک سرگرم سماجی کارکن تھی اور انہوں نے ہر شعبہ میں بڑا کام کیا۔ نرگس، لتا منگیشکر کی شیداء تھیں۔ ایک مرتبہ رائل البرٹ ہال لندن میں منعقدہ موسیقی کے پروگرام میں نرگس نے لتا منگیشکر کا کچھ ان الفاظ سے استقبال کیا تھا: ’’معزز خواتین و حضرات! لتا کسی تعریف کی نہیں بلکہ پرستش کی قابل ہیں۔ ان کی آواز سننے کے بعد کچھ ایسا عالم طاری ہوجاتا ہے جس کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ انہیں سمجھئے جیسے کوئی درگاہ یا مندر میں جائیں تو وہاں پہنچ کر عبادت کیلئے خود بہ خود سر جھک جاتا ہے اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگتے ہیں۔ لتا ایک بہت ہی چھوٹا نام ہے لیکن ان کی شخصیت بہت ہی اونچی ہے، ہمالیہ سے بھی اونچی۔ اب میں درخواست کروں گی کہ ایک مرتبہ لتا منگیشکر پھر آپ کے سامنے آئیں اور یہ گانا پیش کریں۔ ’’ساتھی رے تجھ بن جیا اُداس رے۔ ایک کیسی ان بھوج پیاس رے آجا ‘‘۔ آپ کو بتادوں کہ نرگس، فاطمہ رشید کی حیثیت سے پیدا ہوئی، لیکن انہوں نے مدھو بالا اور مینا کماری کی روایتوں سے انحراف کرتے ہوئے فلمی نام ’’نرگس ‘‘ اختیار کیا۔ انہیں اپنی مسلم تہذیب اور ورثے پر فخر تھا۔ نرگس نے 1935ء میں بنائی گئی فلم ’’تلاش حق‘‘ میں ایک چائیلڈ آرٹسٹ کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ تمنا (1942ء) ، تقدیر (1943ء) میں اہم کردار نبھایا۔ جس کے بعد اَن بن اور ہمایوں (1944ء) ، بیسویں صدی (1945ء) اور نرگس (1946ء) جیسی فلموں نے انہیں ایک اسٹار بنا دیا۔ 1947ء میں دلیپ کمار کے ساتھ ’’میلہ‘‘ اور راجکپور کے ساتھ ’’آگ‘‘ جیسی فلمیں بھی انہوں نے دیں۔ انہیں فلم ’’انداز‘‘ نے کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچا دیا جس میں دلیپ کمار اور راجکپور نے ان کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ راجکپور کے ساتھ انہوں نے 16 فلمیں کیں اور 9 فلمیں راجکپور نے آر کے فلمس کے بیانر تلے بنائیں۔ انہوں نے انداز ، برسات ، دیدار، آوارہ ، شری 420 ، جاگتے رہو اور چوری چوری جیسی بہترین فلمیں کی ہیں۔ ’’مدرانڈیا‘‘ میں تو انہوں نے غیرمعمولی اداکاری کی اور اس کے لئے اکیڈیمی ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا۔ اس فلم کیلئے انہیں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی ملا۔ 1958ء میں انہوں نے سنیل دت سے شادی کی اور رضاکارانہ طور پر فلموں سے سبکدوش ہوگئیں اور اداکارہ کی زندگی کا آخری دن 3 مئی 1981ء کو اس وقت آیا جب انہوں نے ممبئی کے بریچ کینیڈی ہاسپٹل میں آخری سانس لی ۔ وہ لبلبہ کے کینسر میں مبتلا تھیں۔ نرگس کا انتقال بیٹے سنجے دت کی پہلی فلم ’’راکی‘‘ کے پریمیئر سے صرف تین دن قبل ہوا۔