نصابی کتب پر تنازعہ

   

جن کتابوں میں لکھا ہوگا خلوصِ رنگ دل
پڑھتے پڑھتے درمیاں میرا پتہ مل جائے گا
کرناٹک میں کانگریس حکومت کے قیام کو ابھی ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے لیکن بی جے پی کی جانب سے اس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ گذشتہ چار سال کے عرصہ سے ریاست میں بی جے پی برسر اقتدار تھی اور اس نے کانگریس ۔ جے ڈی ایس حکومت کو زوال کا شکار کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ اب جبکہ کانگریس نے اپنے بل پر اقتدار حاصل کیا ہے تو حسب روایت سابقہ حکومتوں کی کچھ غلط پالیسیوں اور اقدامات کو سدھارنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ کام ملک میں ہر ریاست کرتی ہے ۔ کرناٹک میں بھی کانگریس نے تعلیمی نصاب پر نظرثانی کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ نصاب میں جو کچھ بھی غیر ضروری اسباق شامل کردئے گئے ہیں ان کو حذف کردیا جائیگا ۔ بی جے پی حکومت میں ٹیپو سلطان کو نشانہ بناتے ہوئے ان سے متعلق مواد کو تعلیمی نصاب سے حذف کیا گیا تھا ۔ اب مرکزی بی جے پی حکومت کی جانب سے ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ ترانہ لکھنے والے ڈاکٹر علامہ اقبال سے متعلق مواد کو حذف کیا جا رہا ہے ۔ اس کے ساتھ کرناٹک میں آرا یس ایس لیڈر ہیڈگیوار سے متعلق مضمون کو نصاب میں شامل کیا گیا تھا ۔ کانگریس پارٹی نے اس کو حذف کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ بزدل تھے اور فرضی مجاہد آزادی تھے ۔ ان سے متعلق مواد کو نصاب میں شامل نہیں کیا جاسکتا ۔ کانگریس حکومت کے اس فیصلے پر بی جے پی کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور اسے نوجوانوں کے خلاف جرم قرار دیا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی جدوجہد آزادی سے متعلق تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں بی جے پی دور حکومت میں ہوئی ہیں۔ کئی گوشوں نے من مانی کہانیوں کو تاریخ کا حصہ قرار دیا اور حقیقی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی تھی اور ایسے اسباق کو نصاب میں شامل کرنے کے اقدامات کئے گئے تھے جو حقیقی معنوں میں نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے والے تھے اور ایسا کرنا ہی نوجوانوں کے خلاف جرم کہا جاسکتا ہے ۔ تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے چند مخصوص نظریات کو اس میں شامل کرنے کا نہ کوئی جواز ہوسکتا ہے اور نہ یہ قابل قبول عمل ہوسکتا ہے ۔
بی جے پی کے دور حکومت میں ریاست میں کئی گوشے سرگرم ہوگئے تھے۔ کہیں سے ٹیپو سلطان کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان پر تنقیدیں کی جا رہی تھیں جبکہ وہ ملک کے اولین مجاہدین آزادی میں سر فہرست کہے جاتے ہیں ‘ تو کہیں سے حجاب کا مسئلہ اٹھایا جا رہا تھا ۔ کہیں سے حلال گوشت پر پابندی کی بات کی جا رہی تھی تو کہیں سے یکساں سیول کوڈ کے مطالبات کئے جا رہے تھے ۔ یہ سارا کچھ در اصل نوجوانوںکے ذہنوں کو پراگندہ کرنے اور ان کے ذہنوں میں نفرت بھرنے کے مقصد سے کیا جا رہا تھا ۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں سماج کے تمام طبقات نے سرگرم رول ادا کیا ہے ‘ قربانیاں دی ہیں ‘ ایک دوسرے کی مدد سے اس جدوجہد کو کامیاب بنایا ہے تاہم فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل کچھ گوشے اس حقیقت کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں اور وہ تاریخ میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ من مانی کہانیاں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ جدوجہد آزادی کا حصہ رہے ہی نہیں بلکہ انگریزی سامراج کے وفادار ہونے کی قسمیں کھاتے رہیں وعدے کرتے ہیں خطوط لکھتے رہے آج انہیں مجاہد آزادی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جو در اصل آزادی کیلئے جانیںقربان کرنے والے مجاہدین کی توہین کے مترادف ہے ۔ اگر اس طرح کی کوششوں کو سدھارنے کیلئے کسی ریاستی حکومت کی جانب سے کوشش ہو رہی ہے تو اس پر تنقیدیں کرتے ہوئے منفی ذہنیت کی عکاسی نہیں کی جانی چاہئے ۔ باطل نظریات کو فروغ دینے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے ۔
تعلیمی نصاب کو ہر طرح کی زہر آلود سوچ اور نفرت سے پاک رکھا جانا چاہئے ۔ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ملک کامستقبل ہوتے ہیں۔ ملک کی ترقی اور مستقبل کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہوتی ہے ۔ ایسے میں تعلیمی نصاب کو ہر طرح کی منفی سوچ اور زہر آلود خیالات سے پاک رکھتے ہوئے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ تبھی نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہوسکتا ہے اور نوجوان ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں ۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوششوں کا کسی کو اختیار نہیں ہوسکتا چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔ ملک کے مستقبل سے اصل کھلواڑ نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنا ہی ہے ۔ اس سے ہر گوشے اور ہر جماعت کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔