نفرتوں کا عروج

   

ہندوستان کبھی محبتوں کا گہوارہ ہوا کرتا تھا ۔ لوگ ایک دوسرے کے معاون اور مدد گار ہوا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کی مذہبی عقیدتوں کا احترام کیا جاتا تھا ۔ عید اور دوسرے تمام تہوار یکساں جوش و جذبہ کے ساتھ منائے جاتے تھے ۔ ایک دوسرے کی تقاریب میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ شرکت کی جاتی تھی ۔ کوئی کسی سے خوفزدہ نہیں ہوا کرتا تھا ۔ عید میں جو عقیدت ہوتی تھی دیوالی میں بھی وہی خوشیاں ہوا کرتی تھیں۔ مشکل اور مصیبت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ملک کی روایت رہی تھی ۔ تاہم حالیہ چند برسوں میں ہم نے دیکھا کہ ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ رہنے لگے ہیں۔ سماج کے دو بڑے اور اہم طبقات کو ایک دوسرے سے متنفر کردیا گیا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے کترانے لگے ہیں۔ نفرتوں نے ان کے بیج ایک ناقابل عبور دیوار کھڑی کردی ہے ۔ کوئی عید نہیں مناتا تو کوئی تہوار میں شریک نہیں ہوتا ۔ کوئی کسی کی تقریب میں شرکت نہیںکرتا تو کوئی کسی کو مبارکباد دینے میں بھی عار محسوس کرنے لگا ہے ۔ یہ صورتحال ہندوستان کی قدیم روایات کے یکسر مغائر ہے اور اس کے نتیجہ میںسماج میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ اپنے مذہب پر پوری عقیدت کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مذہب کو احترام کی نظر سے دیکھنے کی بجائے لوگ اب دوسرے کے مذہب کی توہین اور ہتک کرنے لگے ہیں۔ ایسی حرکتیں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور انہیں شاباشی کی دی جا رہی ہے ۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بجائے ان کی جیل سے رہائی پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں ۔ ملک میں میڈیا کا رول انتہائی اہمیت کا حامل تھا ۔ میڈیا سماج میں محبتوں کوفروغ دینے کی بجائے نفرت پھیلانے میں مرکزی رول ادا کر رہا ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں زہر انڈیلا جا رہا ہے ۔ سماج میں نفرت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور ملک کی قدیم روایات اور تہذیب کو تار تار کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال سے ملک کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی بلکہ بدخدمتی ہورہی ہے ۔
راجستھان کے شہر اودئے پور میں کل جو واقعہ پیش آیا یقینی طور پر قابل مذمت ہے ۔ کسی کو کسی کی جان لینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ کسی بھی مسئلہ کا حل تشدد اور قتل و غارت گری سے نہیں نکالا جاسکتا ۔ کل کے واقعہ کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کی کوئی مدافعت کی جاسکتی ہے ۔ اس طرح کے واقعات کی سبھی کو مذمت کرنی چاہئے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ہم سبھی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک میں نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے آئیں۔ لوگ ہتھیار نہ اٹھائیں ایسا ماحول بنانا بھی سبھی کی ذمہ داری ہے ۔ مذہبی رواداری سبھی کیلئے ضروری ہے ۔ ایک دوسرے کے جذبات اور مذہبی عقائد کا احترام سبھی کو کرنا ضروری ہے ۔ ملک کے قانون اور دستور میں بھی سبھی مذاہب کو آزادی حاصل ہے ۔ دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہم اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں۔ کسی اور کے مذہب میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق کسی نے نہیں دیا ہے۔ خود ہندوستان میں جتنے مذاہب مانے جاتے ہیں اور جتنے مذاہب پر عمل کیا جاتا ہے سبھی مذاہب نے دوسرے مذاہب کے احترام کی ہی تعلیم دی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم دوسروں کے مذہب کی تضحیک کرتے ہوئے خود اپنے مذہب کی تعلیم کوفراموش کردیتے ہیںاور پھر دہائی مذہب کی ہی دی جاتی ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ سماج سے نفرتوںکو ختم کرنے کیلئے آگے آنے کی بجائے ہر کوئی نفرتوں کوفروغ دینے میں لگا ہوا ہے اور خود کو حق بجانب سمجھ رہا ہے ۔
چاہے اخلاق کا قتل ہو یا پہلو خان کی جان لی گئی ہو ‘ چاہے اودئے پور کے ٹیلر کا قتل کیا گیا ہو یا پھر گائے چوری کرنے کے معاملہ میں دلتو ں اور مسلمانوں کو مارا گیا ہو سبھی واقعات انتہائی قابل مذمت ہیں۔ سبھی واقعات نفرت کے ماحول کا نتیجہ ہیں۔ کسی کو کسی کی جان لینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ نہ کسی مذہب نہ اس کی اجازت دی ہے اور نہ کسی سماج میں اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں نفرتوں کو ختم کیا جائے ۔ محبتوں کے ماحول کو واپس لایاجائے ۔ ایک دوسرے کے احترام کے جذبہ کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصولوں پر عمل کیا جائے ۔ ایسا کرنا ملک کو ایک بار پھر امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کیلئے انتہائی ضروری ہے ۔