نمازیوںپر حملہ ‘ گجرات ماڈل

   

کروں تو کس کی عبادت کروں کسے پوجوں
مرا وجود ہی جب تری ذات ہے اللہ
نمازیوںپر حملہ ‘ گجرات ماڈل
ملک میں پارلیمانی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی فرقہ پرستوں کی غنڈہ سرگرمیاںشروع ہوگئی ہیں اور گجرات کی ایک یونیورسٹی کے ہاسٹل میںنماز تراویح ادا کرنے والے بیرونی طلبا پر ان جنونی شدت پسندوں نے حملہ کردیا اور انہیں زخمی کردیا گیا ۔ ان کے ہاسٹل روم میں توڑ پھوڑ کی گئی اور نعرہ بازی کی گئی ۔ یہ کوئی اتفاق سے پیش آنے والا واقعہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی کارروائی ہے تاکہ عین پارلیمانی انتخابات سے قبل ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ یہ ایسے عناصر ہیں جو نہ صرف ہندوستان میں اپنی ریاست کی رسوائی یا بدنامی کی فکر کر رہے ہیں اور نہ ہی انہیں عالمی سطح پر ملک کا نام متاثر ہونے اور ملک کی شبیہہ بگڑنے کی کوئی فکر لاحق رہ گئی ہے ۔ یہ عناصر محض مذہبی جنون کا شکار ہوکر سیاسی ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں اور سیاسی فائدہ کیلئے ہی ایسی جنونی اور قابل مذمت حرکتیں کر رہے ہیں۔ ویسے ہی سی اے اے کے مسئلہ پر امریکہ اور اقوام متحدہ نے ہندوستان کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے اور اب بیرونی طلبا پر ہاسٹل میں نماز ادا کرنے پر حملہ کرنا ملک کیلئے عالمی سطح پر رسوائی کا ہی باعث ہوسکتا ہے ۔ در اصل افغانستان اور کچھ افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلم طلبا احمد آباد کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ ہاسٹل میں مقیم ہیں۔ چونکہ انہیں یونیورسٹی کیمپس میںمسجد نہ ہونے سے دشواری ہور ہی تھی انہوں نے ہاسٹل روم ہی میں نماز کا اہتمام کیا ۔ اسی وقت پر کچھ فرقہ پرست جنونی اور پاگل عناصر وہاں پہونچ گئے اور انہوں نے نماز تراویح ادا کرنے والوں پر حملہ کردیا اور توڑ پھوڑ مچائی ۔ یہ واقعہ ملک میں پیدا ہوئے مذہبی جنون کی عکاسی کرنے کیلئے کافی ہے کہ کس طرح سے سارے ملک میں حالات کو پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ نوجوانوںکے ذہنوں کو کس حد تک زہر آلود کردیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کی عبادت کو تک برداشت کرنے کو تیار نہیںہیں حالانکہ انہیں دوسروں کو عبادت کرنے سے روکنے کا کوئی حق نہیں ہے اور وہ ایسا کرتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی اوروزیر داخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست گجرات میں پہلے ہی ماحول انتہائی پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ جس طرح سے گجرات میں2002 کے فسادات ہوئے تھے اس سے ساری دنیا میں ہندوستان کو شرمندگی اور شرمساری کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ گجرات اور گجرات کے قائدین کواس پر آج تک شرمندگی نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک طرح سے اس پر فخر ہی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ ذہنی پراگندگی کی انتہاء ہے کہ ایک ہاسٹل میں نماز ادا کرنے والے بیرونی طلبا پر حملہ کردیا گیا ۔ ا ب وہاں محض ضابطہ کی کارروائی ہوگی ۔ حملہ آوروں کی شناخت کا دعوی کیا جائیگا ۔ ان کی گرفتاری کا ڈھونگ بھی رچا جائیگا ۔ عہدیداروںکو انتہائی سخت کارروائی کی ہدایت بھی دی جائے گی ۔ وزراء اور سیاسی ذمہ دار بیان بازیاں کرتے ہوئے بری الذمہ ہوجائیں گے ۔ نتیجہ کیا ہوگا ؟ ۔ حملہ آورچند دن میں دو بارہ جیل کی سلاخوں سے باہر ہونگے اور ان کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہونگے کہ وہ دوبارہ ایسی حرکتیں کرنے بلکہ اس سے زیادہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے سے بھی پس و پیش نہیںکرینگے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جانا عام ہوگیا ہے اسی طرح ان حملہ آوروں کوسزا دلانے کی بجائے پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں انہیں بچانے پر زیادہ توجہ دیتی ہے اور متاثرین کے خلاف ہی مقدمات درج کردئے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی روایت شروع ہوگئی ہے جس سے شرپسندوں کی پشت پناہی ہو رہی ہے ۔
انتخابات سے قبل ملک میں ماحو ل کو بگاڑنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ اس کے ذریعہ بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریگی ۔ اس طرح کے واقعات کا سلسلہ سا شر وع ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا کرنے والے عناصر کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں اس طرح کی سزائیں دلائی جائیں کہ دوسروں کو اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے کا حوصلہ ہی نہ ہونے پائے ۔ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے کوئی بھی کارروائی کی جاتی ہے تو اس سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔یہ دنیا بھر میں ملک کا نام بدنام کرنے والی حرکت ہے اور ایسا کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جانا چاہئے ۔