نیا سال ‘ حکومت ترجیحات کا جائزہ لے

   

نیا سال اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شروع ہوچکا ہے ۔ ساری دنیا میں اس کا پرتپاک استقبال بھی کیا گیا ۔ خوشیاں منائی گئیں۔ آتشبازی کی گئی ۔ ایک دوسرے کیلئے نیک تمناوں کا اظہار بھی کیا گیا ۔ ہندوستان میں بھی جوش و خروش کا ماحول ہی تھا ۔ پوری خوش دلی کے ساتھ سال نو کا استقبال کیا گیا ۔ تاہم ہندوستان میں نیا سال سی اے اے اور این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاجی نوٹ کے ساتھ بھی شروع ہوا ۔ سال نو کا جشن منانے کی بجائے ملک اور ملک کے عوام کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے اس احتجاج کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ حکومت کی جانب سے اور وزیر اعظم کی جانب سے بھی ملک کے عوام کو سال نو کی مبارکباد پیش کی گئی ۔ تاہم صرف مبارکباد پیش کردینا کافی نہیں ہوسکتا ۔ اب جبکہ سال نو کا آغاز ہوچکاہے تو مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی ترجیحات کا جائزہ لے ۔ اپنی پالیسیوں پر غور کرے ۔ ایسے اقدامات کا آغاز کیا جائے جس سے ملک کے عوام میں بے چینی پیدا ہونے کی بجائے سکون اور خوشیوں کا ماحول پیدا ہوسکے ۔ جن لوگوںکو مسائل درپیش ہیں انہیں راحتیں مل سکیں۔ مہنگائی کو کم کرنے پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ قیمتوں میں جو مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس پر قابو پانے کیلئے حکومت کواقدامات کرنے چاہئیں۔ پٹرول وڈیزل کی قیمتوں میںخاموشی سے اتار چڑھاو کا جو سلسلہ ہے اس کو نظر میں رکھنا چاہئے ۔ مسلسل پانچ مہینوںسے پکوان گیس کی قیمتوں میںاضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ دودھ اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات کی چیزیں بھی مہینگی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال پر توجہ دینے اور عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے حکومت سی اے اے اور این آر سی و این پی آر جیسے مسائل میں عوام کو مزید الجھا چکی ہے ۔ سارے ملک میں ایک طرح کی بے چینی پیدا ہوگئی ہے ۔ لوگوں میں اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ ملک کے کئی شہروں میں احتجاج ہو رہا ہے ۔ عوام سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ پولیس کی جانب سے احتجاجیوں کو کچلنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔ جمہوری حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ نت نئے طریقوں سے احتجاجیوں کو ہراساں و پریشان کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔
ملک کی معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہوگئی ہے ۔ کارخانوں میںپیداوار کم ہوتی جا رہی ہے ۔ صنعتوں کی ترقی متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ صنعتیں بند ہونے کے قریب پہونچ چکی ہیں۔ عوام کی قوت خرید میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے ۔ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار کی شرح بھی انتہائی کم ہوگئی ہے ۔ آنے والے وقتوں میں اس پیداوار کے مزید کم ہونے کے اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ روزگار کی صورتحال الگ سے پریشان کن ہے ۔ جو ملازمتیں ہیں انہی کی برقراری مشکل ہوگئی ہے ۔ نئی ملازمتیں ملنا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے ۔ ہر مہینے ملازمتوں میںکسی نہ کسی شعبہ میں تخفیف کی اطلاعات آتی جا رہی ہیں۔ اسٹاک مارکٹ کی صورتحال بھی عدم استحکام کا شکار ہے ۔ یہ ساری صورتحال ایسی ہے جس پر حکومت کو فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بے چینی اور نراج جیسی کیفیت کو ختم کرنے کی بجائے حکومت اپنے اقدامات سے اس طرح کی صورتحال کو مزید ہوا دے رہی ہے ۔ حکومت خود اپنے ہی ملک کے عوام کے احتجاج کو کچلنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے ۔ عوام کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے ۔ لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ آنسو گیس کے شیل برسائے جا رہے ہیں۔ ان پر گولیاں داغی جا رہی ہیں۔ ان کی جائیدادو املاک کو ہراج کرتے ہوئے ان سے ہرجانہ وصول کرنے کا چلن شروع کردیا گیا ہے ۔
ساری صورتحال انتہائی فکر و تشویش کا باعث ہے ۔ ملک میںامن و امان اور چین و سکون کو بحال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ نئے سال میں حکومت کو اپنی ترجیحات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کو اپنے اقدامات اور فیصلوںپر محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو مسائل فوری توجہ کے طالب ہیں ان کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے اور ان کو حل کرنے پر حکومت کو توجہ کرنا چاہئے ۔ جو ماحول بے چینی کا پیدا ہوگیا ہے اس کو دور کرتے ہوئے حکومت کو ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جن سے ملک کے عوام میں اطمینان پیدا ہوسکے ۔ سماج کے مختلف طبقات میں دوریاں کم ہوسکیں اور ان میںیکجہتی اور اتحاد کی فضاء کو پروان چڑھایا جاسکے ۔ ملک کی معیشت کو پانچ ٹریلین تک پہونچانے کیلئے اندرون ملک صنعتوں کو اور معیشت کو مستحکم کرنے پر حکومت کو فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔