نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی

   

پیارے بچو! صدیوں پرانی بات ہے ہندوستان پر اس وقت راجہ مہاراجہ حکومت کیا کرتے تھے۔ ایک راجہ نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا، وہ ایک ظالم بادشاہ تھا،بات بات پر وزیروں کو قتل کروادیا کرتا تھا، لیکن اُس کا ایک وزیر عقلمند اور رحم دل شخص تھا ، وہ رعایا سے نیک سلوک اور اُن کی مدد بھی کرتا تھا۔وہ ایک مرتبہ دریا کی دوسری طرف جانے کیلئے دریا پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کے ایک ملاح نئی کشتی لئے اُس کے استقبال کیلئے موجود تھا۔ جب وہ دوسری طرف پہنچا تو وزیر نے دیکھا کہ بادشاہ کے ہر کارے کشتی پر قبضے کیلئے تیار کھڑے ہیں۔ وزیر نے ملاح کی کشتی اُن سے بچا لی تو وہ وزیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس لوٹ گیا۔ کچھ عرصے بعد کسی نے اس مسئلہ پر وزیر کے خلاف بادشاہ کے کان بھردیئے۔ بادشاہ تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں رہتا تھا کہ کس طرح وزیر سے بدلہ لے۔ کچھ عرصہ پہلے دوسرے بادشاہ نے اُسے سفید ہاتھی کا تحفہ دیا تھا، وہ جب بچہ تھا مگر اب جوان ہوگیا تھا، بادشاہ اپنے وزراء اور درباریوں کے ساتھ اسے دیکھنے گیا۔ تمام درباری اور وزراء اس کی تعریف کررہے تھے۔ بادشاہ ، وزیر سے انتقام لینا بھولا نہیں تھا۔ اُس نے وزیر سے کہا: ’’مجھے اس ہاتھی کا ٹھیک وزن بتاؤ ، ورنہ مَیں تمہیں قتل کروا دوں گا اور اس کیلئے تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے‘‘۔وزیر بہت پریشان ہوا وہ مختلف تدبیروں پر سوچنے لگا مگر اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں د ریا کی طرف نکل گیا اور وہاں بیٹھ کر سوچ وبچار کرنے لگا۔ اِسی دوران وہی کشتی والا بزرگ اُس کے پاس آیا اور جھک کرسلام کیا اور پھر اس نے وزیر کو پریشان دیکھ کر پوچھا: ’’جناب ! کیا بات ہے؟ آپ پریشان لگ رہے ہیں!‘‘ ۔’’ہاں ! بادشاہ نے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے،میرے پاس دس دن کی مہلت تھی، آج آٹھواں دن ہے، اگر مَیں جواب نہ دے سکا تو میری گردن اُڑادی جائے گی‘‘ ، ’’لیکن وہ اُلجھن ہے کیا؟ شاید میں کچھ مدد کرسکوں۔‘‘ کشتی والے بزرگ نے پوچھا۔ وزیر نے جواب دیا : ’’بات یہ ہے کہ بادشاہ کے پاس ایک سفید ہاتھی ہے، جس کا وزن بادشاہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں !‘‘ آپ کا مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل ہوجائے گا ،میری جان خطرہ میں ہے اور تم چٹکی بجاتے مسئلہ حل کررہے ہو!وزیر نے حیرت سے کہا۔ ’’جی جناب! آپ کل ہاتھی لائیے ، اسے کشتی پر بیٹھا کر دریا میں اْتارتے ہیں جتنے کشتی پانی کے اندر جائے گی، اس پر نشان لگائیں گے پھر اتنے وزن کے پتھر کو نشان تک کشتی پانی میں لے جاکر وزن کرلیں۔‘‘ بہت خوب !وزیر کو ساری بات سمجھ میں آگئی۔ دوسرے ہی دن وہ ہاتھی کو دریا کے کنارے لایا، اسے کشتی میں سوار کرکے دریا میں لے جاکر کشتی پر نشان لگا یاپھر اُس نشان تک پتھر ڈال کر وزن کیا گیا پھر اُن پتھروں کا وزن کیا اور بادشاہ کو بتادیا۔ اب بادشاہ حیران ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ جب اُسے بتایا تو وہ بہت خوش ہو ا، ایک نیکی کا یہ صلہ ملا ہے جبکہ اُس وزیر نے بہت سے معاملات میں بادشاہ کی رہنمائی کی تھی اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ وزیر نے ملاح کے ساتھ نیکی کی اور ملاح نے نیکی کرکے اس وزیر کی جان بچالی۔