وادی میں حالات اب بھی معمول پر نہیں ائے۔ اگست او رنومبر کے درمیان جموں او رکشمیر میں مقامی سیاحوں کی تعداد میں ائی بڑی کمی

,

   

جموں اور کشمیر میں سیاحت اب بھی معمول پر نہیں ائی ہے۔اگست سے نومبر کے درمیان یہاں محض 32ہزار گھریلو سیاح پہنچے ہیں۔ سیاحوں میں کمی کی وجہہ مقامی لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

سری نگر۔ جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ فراہم کرنے والے ارٹیکل370کو ہٹائے جانے کے بعد کشمیر میں اس کی خاص اثر دیکھنے کو ملا ہے۔اس سال کشمیر میں اگست اور نومبر مہینے کے درمیان محض32ہزار گھریلو سیاح پہنچے ہیں۔

شمال مشرقی علاقو ں کے برف سے ڈھک جانے کی وجہہ سے بھی وادی پر اثر پڑا ہے۔ جب پچھلے سال چار مہینے کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو 2.49ہزار گھریلو سیاحوں میں 87فیصد کی کمی دیکھائی دی ہے۔

اتنا ہی نہیں‘ غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں بھی 82فیصد کی گرواٹ ائی ہے۔جمو ں کشمیر ٹورازم کے مطابق ستمبر کے مقابلہ نومبر مہینے میں سیاحوں کی تعداد میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نومبر میں 10946گھریلو سیای اور 1140غیری ملکی سیاح پہنچے۔

بتادیں کہ 10اکٹوبرسے سیاحوں کے آنے پر لگے پابندی کو ہٹایاگیاتھا۔ اسکے باوجود اس بار مرکز کے زیر نگرانی ریاست کو خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سری نگر کے ایک خانگی ہوٹل کے مالک پرویز بابا کہتے ہیں کہ 24میں سے محض4کمرے کرایہ پر گئے ہیں۔

حیران والی بات تو یہ ہے کہ ان کمروں کو بھی حقیقی قیمت سے زیادہ قیمت پر دینا پڑا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ”میری ہوٹل ابھی تین سال پرانی ہے اور میں اپنے راستے کاروبار کو چھوڑنے کا خدشہ تو نہیں اٹھا سکتا ہوں۔

اگر میں فی روم4000روپئے کرایہ لیتا ہوں تو مجھے شائد ہی گیسٹ ملیں گے“۔اپنے چھ دوستوں کے ساتھ گلمرگ میں تین راتیں گذارنے کے بعد آسڑیلیا کے رابرٹ سن منگل کے روز چلے گئے۔

سفر کے دوران انہوں نے خود کو یکدم غیر محفوظ محسوس کیا۔ حالانکہ انٹرنٹ کی دستیاب نے ہونے ان کے لئے ایک بڑا چیالنج تھا۔

اس بات کے بارے میں وہ پہلے سے ہی سونچ چکے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میں کئی بار کشمیر آیاہوں۔ لیکن اس بار ہم نے اپنا سفر کے وقت کچھ کٹوتی کی کیونکہ بغیر انٹرنٹ کے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنا مشکل ہورہاتھا“۔

اس سال جون اور جولائی کے مہینے میں جب کسی کو بھی ارٹیکل 370پر اٹھائے جانے کا قیاس بھی نہیں تھا تو وادی میں 1.62لاکھ اور1.49لاکھ گھریلو سیاح ائے تھے۔یہ پچھلے سال کے اعداد وشمار سے 27فیصد زیادہ ہے۔

اس بات کی تصدیق جموں کشمیر ٹورازم سے بھی کی گئی ہے۔ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ امرناتھ یاترا کو اگست میں ہی فیصلے سے پہلے بیچ میں اگر روکا نہیں جاتا تو جولائی میں سیاحوں کی تعداد اور بھی اضافی ہوتی تھی۔