واراناسی۔مودی کے دورے سے کچھ گھنٹے قبل سینکڑوں دلتوں کو محروس کردیاگیا۔

,

   

جبکہ وزیراعظم نریندر مودی نے وشواناتھ دھام کا افتتاح کیا‘ قریب میں دلتوں کی ایس سی بستی کو سخت سکیورٹی حصار میں لے کر مقامی لوگوں کو گھر وں میں محروس کردیاگیا

واراناسی۔جبکہ وزیراعظم نریندر مودی نے وشواناتھ دھام کا افتتاح کیا‘ خودساختہ کاشی وشواناتھ کواریڈارجو دنیا کی سب سے قدیم ثقافت پر بنایاجارہا ہے‘ قریب میں دلتوں کی ایس سی بستی کو سخت سکیورٹی حصار میں لے کر مقامی لوگوں کو گھر وں میں محروس کردیاگیا۔

یہ بھول کہ پچھلے کچھ مہینوں میں ان کے ساتھ ہورہی ناانصافیوں کے متعلق وہ اپنے پارلیمنٹریاں سے نمائندگی کرنے کے لئے ایک درخواست تیار کی ہے‘ انہیں اپنی ہی علاقے کے راستے پر آزادی کے ساتھ گھومنے سے روک دیاگیا اور گھاٹوں سے انہیں کچھ گھنٹوں تک جب مودی وہاں پر توقف کئے ہوئے تھے جبری طور پر دور رکھاگیا۔ ایک بیس سالہ وشال نے کہاکہ ’’ مودی ہم سے خوفزدہ ہیں ۔ یہی وجہہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورے کے مقام سے ہمیں دور رکھا‘‘۔

مذکورہ بدحال چالیس دلت خاندان جالاسین گھاٹ سے محض کچھ دوری پر رہتے ہیں جس کے فوری بعد واراناسی میں مانیکارنیکا گھاٹ ہے جو نریندرمدی کا ڈیولپمنٹ ماڈل کی مثال کے طور پر پیش کیاجارہا ہے۔ یہ کویوٹو سے کاشی تک کاکشیدہ باب ہے جس کے متعلق میڈیامیں جانکاری نہیں ہے۔

یہ علاقہ عام طور پر ایس سی اور اوبی سی سماج جس میں ملاح‘ سہانی وغیرہ شامل کی مشترکہ آبادی پر مشتمل ہے۔ انفرادی پتہ سی کے 10/35کے حامل ۔ یہاں کے حقیقی ثبوت ہیں۔انہیں اسبات کا بھی اندازہ نہیں ہے کس جنریشن سے وہ یہاں پر مقیم ہیں۔

یہ لوگ پکا محل کے حقیقی گھاٹ والے ہیں‘ جو قدیم کاشی سے گنگا کے ساحل پر آکر بسے ہیں۔ کئی سالوں کے بعد مذکورہ گھاٹ والوں کو خود ساختہ کوارڈیڈار کے نام پر جو ممکن ہے کہ کاشی وشواناتھ مندر کے ساتھ گنگا ندی کو جوڑے گا کے پہلے مرحلے کی تعمیر کے لئے ہٹائے جارہے ہیں۔

وشال کی ماں نے کہاکہ ’’ ہم یہا ں سے وہاں اوروہاں سے یہاں جانے پر مجبور ہیں‘‘۔ مجوزہ پرجکٹ کا نصف حصہ پہلے سے مہندم کردیاگیاہے ۔ اس میں167مکانات او ربے شمار منادر تھے۔

جو اس مقام کو خالی نہیں کرنا چاہتے ہیں اور معاوضہ کی رقم جنھیں اب تک نہیں ملی ہے ‘ وہ اس گرد آلود اور وسیع کوارڈیڈر کی مٹی او ردھول میں پڑے ہیں۔گنگاندی کے اوپر رہنے کی وجہہ سے ان پر مٹی کے تودے گرنے کا خدشہ ہے۔

مگر ان کے لئے یہ حقیقی خطرہ نہیں ہے۔پولیس یہاں پر پہنچی اور انہیں نکالنے کا کا شروع کردیا۔ اس وقت یہاں پر صرف عورتیں تھا باقی مرد اپنے اپنے کام پر گئے ہوئے تھے۔

مذکورہ عورتوں نے عہدیداروں سے کہاکہ مرد واپس لوٹنے تک تھوڑا انتظار کریں۔ ہ علاقے کی صفائی کے لئے بے چین تھے اور ہتھوڑی سے گھروں کی دیواریں توڑنے کاکام شروع کردیا۔ عورتوں نے اس کی مخالفت کی ۔

پولیس نے ان پر حملہ کردیا جس میں نتیانند‘ نیرملا‘ ششی کلا اور گڈیا بری طرح زخمی ہوگئے۔ ایک مقامی نے یہ سارے واقعہ اپنا موبائیل پر ریکارڈ کیا۔ این ایچ کے پاس پولیس کی بربریت کے اہم فوٹیج ہیں۔یہی ایک واقعہ نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی انہیں دھمکانے کے کئی ایک واقعات پیش ائے تھے

دلتوں کو پریشان اور گمراہ کیاگیاتاکہ وہ اپنی پرانی عادتوں میں رہے سکیں۔ اس طرح کے واقعات مندر ٹرسٹ کی جانب سے انتظامیہ پر اعلی قیادت کی ایما ء پرڈالے جانے والے دباؤ کی عکاسی کرتے ہیں تاکہ8مارچ سے قبل کوایڈار کا کام مکمل کرلیاجائے جب مودی اس کا افتتاح کریں گے۔

یومیہ اساس پر علاقے کو خالی کرانے کے ویڈیوز انتطامیہ کی جانب سے سی ایم یوگی ادتیہ ناتھ کو بھیجے جارہے تھے اور اب بھی اس کاکام جاری ہے۔موقع سے مودی کے جانے کے بعد لوگ اپنے پڑوسیوں سے ملنے اکٹھا ہوئے۔

سی کے 10/35کے قریب مہندم گھروں کے پاس تین نوجوان سروں کے ہاتھ لگائے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک وویک ہے‘ درج فہرست طبقے سے تعلق رکھنا والا نوجوان جو دس ماہ قبل ایک اٹلی کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کے بعد اٹلی میں جابساہے۔

گھر والو ں کی پریشانی سن کر ان دونوں وہ یہاں پر آیا ہوا ہے ۔ این ایچ سے بات کرتے ہوئے اس نے کہاکہ ’’ ہم پوری طرح مایوس ہوگئے ہیں۔ یہ سارے میرے دوست ہیں۔ ہم ایک ساتھ کھیلے کودے اور بڑے ہوئے ‘ اور جو کچھ پیش آیا اس کاسامنا ساتھ ملکر کیاہے۔

اب ہم کیا کرنا ہے اس کے لئے الجھن کاشکار ہیں۔ کسی بھی وقت ہم نکال کر پھینک دئے جائیں گے‘‘۔.دیگر ساتھیوں نے بھی انتظامیہ کی کاروائی پر مایوسی کااظہار کیا۔ کچھ دیر کی بات چیت کے بعد مذکورہ عورتوں نے کھل کر بات کی۔

ان میں سے ایک نے کہاکہ ’’ مودی جی خالی دیکھاوا کرتے ہیں۔ پیر دھونے سے کچھ نہیں ہوتا‘ یہاںآکر دیکھیں ہم لوگ روز روز کیاجھیل رہے ہیں۔ لوگ مندر کے غنڈے‘ ٹھکیدار‘ پولیس والے اکے عورتوں کے ساتھ زبردستی کرتے ہیں۔ ہم لوگ گھر میں ہوتے ہیں اور وہ لوگ ہتھوڑا چلاتے ہیں۔

ایک پیسہ ابھی ملا نہیں ہے۔کرایہ پر رکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔سننے والا بھی کوئی نہیں ہے‘‘۔

مذکورہ لوگ میڈیا پر بھی برہم ہیں۔ این ایچ سے بات کرتے ہوئے ایک نوجوان نے کہاکہ دیو دیپاولی کی رات میں اس نے میڈیا کے نمائندوں سے درخواست کی تھی کہ ہمارے علاقے میں آکر دیکھیں کہ کس طرے مندروں کو منہدم کردیاگیا ہے۔ نوجوان نے کہاکہ’’ وہ ائے دیکھا او رکہنے لگے۔ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

یہ مودی جی کا ذاتی معاملہ ہے۔ سب ان کے کہنے پر ہورہا ہے‘‘۔ وہیں دلت عورتیں یہاں پر زیادہ تر مارواڑیوں کے گھر میں کام کرتی ہیں‘ گھاٹیوں کے کچھ دلت نوجوان میونسپلٹی میں صفائی کرم چاری کاکام کرتے ہیں۔ جمعہ کی صبح مودی کی آمد سے قبل یہ ورکرس کچرے کی صفائی کی ہے۔

ان میں سے ایک نوجوان نے کہاکہ انہیں تین ماہ سے کوئی تنخواہ نہیں ملی ہے اور اب بھی انہیں کام کرنے کا دباؤ ڈالاجارہا ہے۔ان کو کون ووٹ ڈالے گا۔ یہ کہتے ہوئے مسکرا کر ایک ورکر اپنی بنڈی لیکر دور چلا گیا۔بنارس کی گھاٹیں کئی سالوں سے اس لئے ہی زندہ ہیں کیونکہ مذکورہ لوگ یہاں پر رہتے ہیں۔

ان میں سے ملاح بھی ہیں ‘ جو پچھلے چھ ماہ میں دومرتبہ اس لئے ہڑتال پر گئے ہیں کیونکہ انہیں مودی کے ہاتھوں لانچ کی گئی کروز سے ان کی زندگیوں پر پڑنے والے خطرات کا انداز ہوگیاہے۔ ماباقی میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے لوگ او ردوکان مالک ہیں جو اب بے روزگار ہوگئے ہیں۔

ان میں سے کچھ بیرونی ممالک میں کام کرنے کی غرض سے چلے گئے ہیں۔ کچھ روایتی برہمن ہیں جو سیاحوں کے لئے پکوان کا اہتمام کررہے ہیں
یہاں پر ایک سال پرانا دی کوئنڈ کا ویڈیو بھی پوسٹ کیاجارہا ہے جس میں مذکورہ پراجکٹ کی تیاری کے لئے شروعات ہوئی تھی اور بنارس کے لوگوں سے مکانات خریدنے اور انہیں دھمکانے کی بات چیت ریکارڈ کی گئی تھی۔

YouTube video