واہ رے غریب آدمی…!

   

محمد ریاض احمد
کوئی شخص اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے سخت جدوجہد و محنت کرتا ہے، خود کم کھاکر یا بھوکے رہ کر اپنے بیوی، بچوں کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا بدن قیمتی ملبوسات کی بجائے بوسیدہ لباس سے ڈھکا رہتا ہے، جس کے وجود سے افلاسی صاف جھلکتی ہے اور کبھی وہ یا اس کے بچے بیمار ہوتے ہیں تو ان کا علاج کرانے سے بھی وہ قاصر ہوتا ہے، جس کو اپنا کہنے اور اس کے قریب ہونے سے لوگ کتراتے ہیں، خوشحال طبقہ کی محفلوں سے جسے دور رکھا جاتا ہے اور جس کا غریبوں و فقیروں میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اور اپنی بقاء کے لئے کسی فٹ پاتھ پر یا بہتے نالے کے کنارے وہ چائے بیچتا ہے تو یقینا اسے غریب آدمی کہا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص کو زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہوں، ہر روز بلکہ چند گھنٹوں میں وہ اپنے لباس تبدیل کرتا ہو اور جس کی ذوق لباسی کا یہ حال ہیکہ وہ ہزار، دو ہزار، دس ہزار یا پچاس ہزار قیمت کے حامل لباس زیب تن نہیں کرتا بلکہ وہ جو سوٹ، کرتا یا پائیجامہ زیب تن کرتا ہے اس کی قیمت 10 لاکھ تک بھی ہوتی ہے اور جس کا صبح شام ملک کے دولتمند صنعتکاروں و تاجرین اور سیاستدانوں میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اس کے ایک اشارے پر اس کے صنعتکار دوست کروڑہا روپے لٹانے یا نچھاور کرنے ہمیشہ تیار رہتے ہیں جس کے قیمتی سوٹ کے جیب میں پانچ یا دس ہزار قیمت کا پن نہیں بلکہ 1.3 لاکھ روپے کا پن ہوتا ہے اور جس کے جوتے چپلوں کی قیمت کے بارے میں سن کر غریب تو دور ایک عام دولتمند کو بھی غش آجاتا ہے اور جس نے دنیا کے کم از کم 60 ممالک کا دورہ کیا ہو اور جسے اپنے 56 انچ کے سینے پر فخر ہو (جہاں تک غریب آدمی کا سوال ہے بھوک و افلاس اور ذمہ داریاں اس کے سینے کو سکڑ کر رکھ دیتی ہیں اور اس کا سینہ 20 انچ تک بھی پھیل نہیں پاتا) اور جو بار بار اپنی سیاسی اجارہ داری برقرار رکھنے جھوٹے وعدوں کا سہارا بھی لیتا ہو تو اسے کسی حال میں بھی غریب نہیں بلکہ دولتمند ترین شخص کہا جاتا ہے۔ ہمارا مقصد اس تمہید کے ذریعہ یا امیر غریب میں فرق کو ظاہر کرتے ہوئے کسی کی توہین کرنا نہیں بلکہ اپنے ہم وطنوں کو یہ بتانا ہے کہ آج ہمارے ملک کے سیاستداں خود کو غریب آدمی کہہ کر یا کہلا کر حقیقت میں غریبوں کی توہین کررہے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسے کئی سیاستداں آئے ہیں جو حقیقت میں غریب تھے لیکن اپنے پاکیزہ و سیکولر اور غریب دوست سوچ و فکر، انسانیت اور سادگی نے انہیں امیروں کی صف سے بھی آگے لا کھڑا کردیا تھا۔ اگر ہندوستان کے تناظر میں ہم دیکھیں تو حقیقت میں غریب وہ نہیں جو بھوک و افلاس کا شکار ہو اور جس کے سر پر کوئی آسرا نہ ہو بلکہ غریب وہ ہے جو عوام سے بلند بانگ دعوے کرتا ہو، اقتدار کے لئے جھوٹ اور دروغ گوئی کا سہارا لیتا ہو، مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرتا ہو اور اپنے ہی ملک کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچاتا ہو، غریب ہونا کوئی بری بات نہیں بلکہ غلیظ ہونا یہ سب سے بدترین بات ہے، جبکہ جھوٹا اورمکار ہونا بھی بدسے بدتر ہے۔ حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں ہمارے محترم وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے مودی جی کی زبردست ستائش کرتے ہوئے انہیں ایک ’’غریب آدمی‘‘ قرار دیا۔ پتہ نہیں راجناتھ سنگھ نے کیسے وزیر اعظم کو ایک غریب آدمی قرار دیا جبکہ وہ خود خاموشی سے نظارہ کررہے ہیں کہ غریبوں کا ملک میں کیا حال ہے اور وہ روز کس طرح مر مر کر جیتے ہیں اور زندگی کی لڑائی لڑتے ہیں۔ اگر مودی جی غریب ہیں تو پھر راجناتھ سنگھ کے یہاں ہندوستان کے حقیقی غریبوں کی غریبی کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ راجناتھ سنگھ کو یہ جان لینا چاہئے کہ نریندر مودی کوئی غریب نہیں بلکہ ملک کے سب سے بااثر عہدہ، عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں۔ اگر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے والی شخصیتوں میں صرف لال بہادر شاستری ہی متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔

ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب ان کے بچوں نے فیٹ کار لینے کی ضد کی اور انہیں بتایا کہ آپ ایسے جلیل القدر عہدے پر فائز رہنے کے باوجود ہمارے گھر میں کوئی گاڑی نہیں ہے تب لال بہادر شاستری بادل نخواستہ فیٹ کار خریدنے کے لئے تیار ہوئے اور اس دور میں انہوں نے بینک سے 6 ہزار روپے کا قرض حاصل کیا۔ اگر لال بہادر شاستری صنعت کاروں کے دوست ہوتے یا ان میں اپنے ملک کی خدمت کا جذبہ نہیں ہوتا تو وہ فیٹ کار نہیں بلکہ بے شمار چارٹرڈ فلائٹس اپنے یا اپنے ارکان خاندان کے نام کروالیتے۔ لال بہادر شاستری کا لباس بھی انتہائی سادہ ہوتا۔ ان کے لباس کی قیمت 10 لاکھ روپے نہیں ہوتی اور نہ ہی کبھی ان کے سوٹ کی 4.3 کروڑ روپے میں بولی لگائی گئی جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کے سوٹ کی بولی لگائی گئی تھی۔ اگر سادگی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک ذمہ دار ہندوستانی شہری کے ناطے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی انتہائی سادگی سے زندگی گذارتی ہیں۔ وہ کاٹن کی ساڑی زیب تن کرتی ہیں اور معمولی چپل پہنتی ہیں جبکہ اروند کجریوال بھی سادی زندگی گذارتے ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی گذرا جب اروند کجریوال نے یہ کہتے ہوئے اپنے دانتوں کا علاج کروانے سے انکار کردیا تھا کہ ان کے پاس علاج کے لئے 4 ہزار روپے نہیں ہیں۔ اگر حقیقی طور پر غریب سیاستداں کو دیکھنا ہو تو راجناتھ سنگھ کو چاہئے کہ وہ کمیونسٹ قائدین جیوتی باسو اور تریپورہ کے سابق چیف منسٹر مانک سرکار کی زندگی کا مطالعہ کریں جو پارٹی کے فراہم کردہ ایک کمرہ میں رہتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم، راجناتھ سنگھ کی نظر میں غریب آدمی ہیں تو راجناتھ سنگھ دولت مند ہیں اور ان کی دولت کا اندازہ شاید راجناتھ سنگھ کو ہی ہوگا۔ راجناتھ سنگھ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی غریب آدمی Mont Blanc، Visconti OMAS جیسے قیمتی پن استعمال نہیں کرتا جبکہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ 1.3 لاکھ روپے مالیتی پن سے دستخط کرتے ہیں۔ قارئین کی اطلاع کے لئے یہ بتادیں کہ Mont Blanc پن کی قیمت ڈھائی ہزار روپے سے لے کر لاکھوں روپے تک ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے جیب میں معمولی پن ہوتا ہے لیکن اس پن سے جو الفاظ نکلتے ہیں اس میں انسانیت کا درس ہوتا ہے۔ آج ہندوستان کو ایسے پن کی ضرورت نہیں جو قیمتی تو ہو لیکن اس سے سیاہی نہیں بلکہ بے قصوروں کا خون بہتا ہو، بلکہ آج ہندوستان کو ایک ایسے پن (قلم) کی ضرورت ہے جس سے نکلنے والا ہر لفظ محبت و اتحاد کا پیغام دے۔ راجناتھ سنگھ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو غریب آدمی تو کہا لیکن یہ بھول گئے کہ اس غریب آدمی نے دسمبر 2018 تک تقریباً 59 ممالک کا دورہ کیا اور ان بیرونی دوروں پر زائد از 2021 کروڑ روپے کے مصارف آئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کوئی غریب آدمی اس طرح کے بیرونی دورہ کرسکتا ہے؟ غریب تو دور کوئی کروڑ پتی بھی اس قسم کے دورے نہیں کرسکتا۔ اگر اوسطاً دیکھا جائے تو ہمارے وزیر اعظم کے بیرونی دوروں پر فی دورہ 22 کروڑ کے مصارف آئے ہیں۔ انہوں نے بھوٹان سے لے کر برازیل، نیپال، مائنمار، سنگاپور، افغانستان، پاکستان، جاپان، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ، یو اے ای، ترکی، قطر، سعودی عرب، اردن، اسرائیل، فلسطین، روس اور جنوبی کوریا کے دورے کرلئے۔ کوئی غریب آدمی اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر آج ہندوستان کی سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پنچایت انتخابات میں بھی کوئی غریب مقابلہ نہیں کرسکتا بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ پنچایت انتخابات میں امیدواروں نے لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں۔

یہ ضرور ہے کہ مودی جی نے سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کا مضحکہ اڑاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اندرا گاندھی نے غریبی ہٹانے کا جھوٹا وعدہ کیا تھا لیکن اپنے آپ کو چائے والا قرار دینے والے مودی جی شاید اُس وقت کسی ریلوے اسٹیشن پر چائے فروخت کررہے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ اندرا گاندھی کے غریبی ہٹاؤ نعرے کے باعث ہی وہ غربت کے دائرہ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہوں اور اسی کے نتیجہ میں آج وہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے۔ مودی جی یہ سوال کرتے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ غریبی ختم ہوئی یا نہیں۔ اس کا جواب تو وہ خود دے سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ حقیقت میں غریبی کے دور سے گذرے ہیں تو آج ان کی جو حالت ہے وہ تبدیلی کو ثابت کررہی ہے۔ مودی جی کانگریس پر شدید تنقیدوں کے لئے شہرت رکھتے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ کانگریس ہندوستان میں موروثی سیاست کو فروغ دینے والی پارٹی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس کی 133 سالہ تاریخ میں تقریباً 93 ویں برسوں تک نہرو۔ گاندھی خاندان کے باہر کے افراد پارٹی کی صدارت پر فائز رہے۔ تقریباً 64 شخصیتوں نے کانگریس صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جس میں سے 58 کا تعلق نہرو گاندھی خاندان سے نہیں تھا۔ آزادی کے بعد سے ملک کے 14 صدور جمہوریہ آئے جن سے ایک کا بھی تعلق نہرو گاندھی خاندان سے نہیں تھا۔ جہاں تک مودی جی کے غریب ہونے کا سوال ہے بقول راہول گاندھی ایسا ہو ہی نہیں سکتا مودی جی نہ غریب اور نہ ہی چوکیدار بلکہ امبانی، اڈانی جیسے صنعتکار و تاجرین اور امیتابھ بچن جیسے فلم اسٹار ان کے دوست ہیں۔ راہول کے مطابق مودی نے اپنے صنعتکار دوستوں کے 3.5 لاکھ کروڑ روپے کے قرض معاف کردیئے جبکہ کسانوں کو یومیہ 3.5 روپے دینے کا اعلان کرتے ہوئے ان کی غربت کا مذاق اڑایا ہے۔ وہ سوٹ بوٹ والے وزیر اعظم ہیں اور کوئی غریب سوٹ بوٹ کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔ حد تو یہ ہے کہ مودی جی کے سوٹ کی جو بولی لگائی گئی تھی وہ ایک ریکارڈ بن گیا اور اسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا۔ مودی کو غریب آدمی کہنے والوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ مودی جی کسی بھی حال میں غریب نہیں ہیں۔ اگر ہمارے سیاستداں غریب نہیں ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن انہیں کم از کم غریبوں کا تو ہونا چاہئے۔ راجناتھ سنگھ نے کس تناظر میں یہ بات کہی ہے اس بارے میں بعض سیاسی پنڈتوں کا یہی کہنا ہیکہ انہوں نے دراصل مودی کی بدلی ہوئی حالت کو بے نقاب کرنے کے لئے جان بوجھ کر ایسا بیان دیا ہے تاکہ اپوزیشن کو مودی کی حقیقت منظر عام پر لانے میں مدد مل سکے۔ مودی بھگتوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ مودی جی غریب نہیں ہیں بلکہ ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی آبادی غریب اور پسماندہ ہے صرف 189 ملین افراد کے غربت کا حال یہ ہے کہ وہ بناء کھائے سوتے ہیں۔ کاش مودی جی کی غربت ہر ہندوستانی کے شہری کو آجائے تو پھر ہندوستان ماضی کی طرح جنت نشاں بن جائے گا۔ اگر مودی جی ہندوستانیوں کے بینک اکاؤنٹ میں فی کس 15 لاکھ روپے جمع کروانے کا ایک وعدہ ہی پورا کردیں تو ہندوستان کے حالات بدل سکتے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com