وزیر اعظم کا خطاب ‘ عوام کو راحت نہیں

   

وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ملک کے 74 ویں یوم آزادی کے موقع پر تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے رسم پرچم کشائی انجام دینے کے بعد قوم سے خطاب کیا ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کئی پہلووں کا احاطہ کیا ۔ انہوں نے جہاں سرحدات پر جارحیت کرنے والے پڑوسی ممالک کو بالواسطہ طور پر خبردار کیا وہیں انہوں نے جموںو کشمیر میں از سر نو حد بندی کے بعد اسمبلی انتخابات کروانے کا بھی وعدہ کیا ۔ وزیر اعظم نے ملک کے عوام کو یہ بھی دلاسہ دیا کہ ملک میں تین طرح کی کورونا ویکسین کی ایجاد کی تیاریاں چل رہی ہیں اور بہت جلد یہ ویکسین عوام کیلئے دستیاب ہوگی اور اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ یہ ویکسین ہر ضرورت مند تک پہونچنے پائے ۔ وزیر اعظم کی تقریر میں کئی اہم امور کا بھی احاطہ کیا گیا اور انہوں نے حسب روایت ایک اچھے مقرر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تقریری صلاحیتوں کا اظہار بہترین انداز میںکیا ہے ۔ تاہم ایک پہلو یہ بھی رہا کہ اس تقریر میں وزیر اعظم نے ملک کے عوام کیلئے کسی بڑی راحت یا سہولت کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے ۔ الفاظ کے استعمال میں انتہائی محتاط اور ماہر قرار دئے جانے والے وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپنی اسی صلاحیت کا اظہار کیا اور اپنی تقریر سے عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے ملک کی معیشت کو سدھارنے کیلئے کیا منصوبہ بنایا ہے ۔ کس طرح سے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سدھارا جائیگا ۔ حکومت کس طرح کے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ صنعتی پیداوار کو بڑھانے کیلئے اور صنعتی شعبہ میں دوبارہ جان ڈالنے کیلئے کس طرح کے اقدامات حکومت کے منصوبے میںشامل ہیں۔ حکومت صنعتی شعبہ کیلئے کیا عزائم رکھتی ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ملک میں صنعتی شعبہ متاثر ہے ۔ اس کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پیداوار گھٹ گئی ہے ۔ اس شعبہ میں بھی ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں اور جو پیداوار ہو بھی رہی ہے اس کی فروخت میں کمی آگئی ہے ۔ اس شعبہ پر حکومت کی خاصی توجہ کی ضرورت ہے اور ایسے اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ صنعتی شعبہ کو سرگرم اور دوبارہ متحرک کرنے میں ممکنہ حد تک مدد مل سکے ۔

وزیر اعظم نریند مودی نے اپنی تقریر میں ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ سرکاری اعدادو شمار اور ڈاٹا کے مطابق ملک میں بیروزگاری کی شرح کئی برسوں میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ اس کے علاوہ غیر منظم شعبہ کی جو ملازمتیںتھیں وہ بھی عملا ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد اپنی ملازمتوں اور روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ پہلی تو گرتی ہوئی معیشت اور سست رفتار ترقی سے ملازمتوں کا بحران پیدا ہونے لگا تھا ۔ پھر کورونا وائرس کے وجہ سے ملک بھر میںلاگو کئے گئے لاک ڈاون نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ۔ لاکھوں افراد جو اپنے آبائی شہروں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہوکر روزگار حاصل کر رہے تھے ۔ محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے روزی روٹی حاصل کر رہے تھے وہ اپنے آبائی شہروں کو واپس ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ آبائی شہروں میں ملازمتیں ممکن نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کے پاس اتنی زمین ہے کہ وہ اپنے طور پر خود مکتفی ہوسکیں۔ عوام کی جیبوں میںا تنا بھی دم خم باقی نہیں رہ گیا ہے کہ وہ چھوٹا موٹا کوئی کاروبار ہی کرسکیں تاکہ اپنے اہل خانہ کیلئے روزگار حاصل کیا جاسکے ۔ وزیر اعظم کو اس مسئلہ پر ملک کے نوجوانوں کو کوئی تیقن دینا چاہئے تھا ۔ ان کی مشکلات اور پریشانیوں کا اپنی تقریر میں تذکرہ کرنا چاہئے تھا اور انہیں اس بات کا تیقن دیا جانا چاہئے تھا کہ حکومت ان کے ساتھ ہے اور ان کی پریشانیوں اور مشکلات کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔

وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔ انہوں نے ایسے مسائل پر کوئی لفظ نہیں کہا جن کا راست عوام سے یا ملک کی معیشت سے مہنگائی سے یا بیروزگاری دور کرنے سے کوئی تعلق ہو ۔ انہوں نے جو تقریر کی ہے وہ ایک اچھے مقرر کی تقریر تو ضرور کہی جاسکتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے سرحدات پر جارحیت کرنے والوں کو انتباہ بھی دیا ہے ۔ یہ ہندوستان کی سلامتی کے تحفظ کیلئے ضروری بھی تھا اور وزیر اعظم نے ایسا کیا بھی ہے جو قابل ستائش ہے ۔ تاہم عوامی مسائل کووزیر اعظم نے اپنی تقریر میں یکسر نظر انداز کردیا ہے اور انہوں نے عوام کو صرف تیقنات دینے پر اکتفاء کیا ہے اور راست کسی ایسے منصوبے کا اعلان نہیں کیا جس سے عوام کو راحت مل سکے ۔

سرکاری محکموں میں رشوت خوری
تلنگانہ میں جس وقت سے کے سی آر کی حکومت قائم ہوئی ہے یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ حکومت نے رشوت کے خاتمہ کیلئے موثر اقدامات کئے ہیں اور رشوت ستانی میں کمی آئی ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی عہدیدار کی رشوت حاصل کرتے ہوئے گرفتاری عمل میں آتی ہے ۔ ایسے عہدیداروں کے کروڑوں روپئے کے اثاثہ جات کی ضبطی عمل میں آتی ہے اور پھر چند دن بعد سب کچھ سابق کی طرح بحال ہوجاتا ہے ۔ کل ایک تحصیلدار کی ایک کروڑ 10 لاکھ روپئے رشوت لیتے ہوئے گرفتاری اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ یہ تحصیلدار وہی ہیں جن کے خلاف غیر محسوب اثاثہ جات کا مقدمہ چل رہا تھا اور چند ہفتے قبل ہی ان کو اس مقدمہ میں براء ت مل گئی تھی ۔ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو عہدیدار یا سرکاری ملازم رشوت حاصل کرتے ہوئے گرفتار ہوتے ہیں ان کے خلاف دکھاوے کی کچھ کارروائی تو کی جاتی ہے اور مقدمہ بھی درج ہوتا ہے ۔ تاہم کچھ وقت گذرنے کے ساتھ سب ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ ان کی خدمات بھی بحال ہوجاتی ہیں اور انہیں اہم عہدے بھی دئے جانے لگتے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات میں اس قدر لا پرواہی کی جاتی ہے کہ وہ بری ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ عہدیدار جو رشوت لیتے ہوئے گرفتار ہوتے ہیں وہ دوسرے عہدیداروں کو رشوت دیتے ہوئے اپنے خلاف مقدمہ کو کمزور کرلیتے ہیں اور عدالتوں سے براء ت کی راہیں ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بحالی کے بعد بھی ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور نہ ہی ان کی وجہ سے کوئی دوسرا راشی عہدیدار رشوت لینے سے گریز کرتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے عہدیداروں کے خلاف سخت گیر قوانین بنائیں جائیں اور انہیں کیفر کردار تک پہونچاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ انہیں مقدمات میں سزا ہو ۔ ان کی خدمات ختم کردی جائیں اور ان کے خلاف کارروائی کو دوسروں کیلئے عبرت کا مقام بنایا جائے تاکہ ایسی سزاوں کے ڈر سے رشوت ستانی میں کمی آسکے ۔