وزیر اعظم کا دورہ تلنگانہ

   

عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کیلئے
ہم کسی گھر میں اجالا نہیں ہونے دیتے
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دو روزہ دورہ تلنگانہ کو مکمل کرلیا ۔ وہ دارالحکومت دہلی واپس ہوچکے ہیں۔ اپنے دو روزہ دورہ تلنگانہ کے موقع پر نریندر مودی نے ریاست میںکچھ ترقیاتی پراجیکٹس کا افتتاح انجام دیا ۔ انہوں نے اس دورہ کو خالص غیر سیاسی قرارد یا تھا اور کہا تھا کہ وہ سیاست صرف انتخابات میں کرتے ہیں ۔اس دعوی کے باوجود وزیر اعظم نے اپنے دورہ کے موقع پر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا ۔ انہوں نے جہاں بی آر ایس کو تنقید کا نشانہ بنایا وہیں کانگریس کو بھی نہیں بخشا ۔ دونوںہی جماعتوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے ریاست میں بی جے پی کا انتخابی بگل ایک طرح سے بجادیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے تلنگانہ کے 9 لوک سبھا حلقوں سے امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کردیا گیا ہے اور پارٹی کیڈر میں انہوں نے نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ انہوں نے بی جے پی قائدین کے ساتھ کوئی باضابطہ اجلاس منعقد نہیں کیا اور نہ ہی سیاسی مسائل پر تبادلہ خیال کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر و بیشتر وزیر اعظم انتخابات سے قبل ہی ریاستوں کے دورے کرتے ہیںاور اسی موقع پر وہ ترقیاتی کاموں کا افتتاح بھی انجام دیتے ہیں۔ اب جبکہ سارے ملک میںعام انتخابات ہونے والے ہیںایسے میں وہ تقریبا تمام ریاستوں کے دورے کرتے ہوئے سرکاری ترقیاتی کاموں کا افتتاح کر رہے ہیں۔ جب کبھی کسی بھی ریاست میں چناؤ ہوتے ہیں تو وزیر اعظم لگاتار اس ریاست کا دورہ کرتے ہوئے وہاں ترقیاتی کاموں کا افتتاح انجام دیتے ہیں۔ اس طرح وہ راست نہ صحیح لیکن بالواسطہ طور پر سیاست ہی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی ریاست کے دورہ کو سیاسی دورہ قرار نہ دیا جائے تو ملک کے عوام ضرور اس سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اسی ریاست کو برقرار رکھتے ہوئے تلنگانہ میں بھی انتخابات سے عین قبل ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح انجام دیا ہے ۔ یہ کام بہت پہلے کئے جانے تھے جنہیںنہیں کیا گیا اور ان کو معرض التواء میں رکھتے ہوئے انتخابات سے عین قبل افتتاحی تقریب منعقد کی گئی ہے ۔
سرکاری کام کاج کو جس طرح سے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے بی جے پی حکومت کی جانب سے استعمال کیا جا تا ہے اس کی مثال اترپردیش میں دیکھنے کو ملی ہے ۔ اترپردیش میں آر ایل ڈی لیڈر جئینت چودھری کے دادا اور سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کو عین انتخابات سے قبل بھارت رتن ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آر ایل ڈی سربراہ جئینت چودھری نے انڈیا اتحاد میں سماجوادی پارٹی لیڈرا کھیلیش سنگھ یادو کے ساتھ مفاہمت کو طئے کرنے کے باوجود انڈیا اتحاد کو خیر باد کہہ دیا اور پھر انہوں نے اب بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے میںشمولیت اختیار کرلی ۔ اسی طرح سے انتخابات ہی کو شائد پیش نظر رکھتے ہوئے تلنگانہ میں عوامی تائید حاصل کرنے کے مقصد سے سابق وزیر اعظم آنجہانی پی وی نرسمہا راؤ کو بھی اسی طرح ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔ جن قائدین کو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے اس پر کوئی سوال نہیں کیا جا رہا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عین انتخابات سے قبل یہ کام کئے گئے ہیں۔ گذشتہ دس برس سے بی جے پی مرکز میں برسر اقتدار ہے ۔ اس طرح کے ایوارڈز کا اعلان گذشتہ ایک دہے میںنہیں کیا گیا بلکہ اب بی جے پی حکومت کی دو معیادوں کی تکمیل کے قریب انتخابات کے اعلان سے عین قبل ان ایوارڈز کا اعلان کیا گیا جس سے یہ تاثر ضرور تقویت پاتا ہے کہ مرکزی حکومت نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد ہی سے ان ایوارڈز کا اعلان کیا ہے ۔ بھلے ہی حکومت اور بی جے پی کی جانب سے اس سے انکار کیا جائے ۔
تلنگانہ میں جس طرح سے بی آر ایس پارٹی کمزور ہوئی ہے اور جس طرح سے بی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ کو بی جے پی میں شامل کیا گیا ہے اور دوسرے قائدین کانگریس کی سمت دیکھ رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی نے وزیر اعظم کے سرکاری دورہ کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی تلنگانہ پر اسمبلی انتخابات میں بھی نظریں لگائے ہوئے تھی لیکن اسے اس میں کوئی کامیابی نہیںملی ۔ اب بی جے پی مرکز میں اقتدار کو یقینی بنانے تلنگانہ میں زیادہ کامیابی کی امید کے ساتھ دوبارہ سرگرمیوں کا آغاز کیا تاہم بی جے پی کی یہ امیدیں تلنگانہ میں پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔