وہ پھول سر چڑھا جو وطن سے نکل گیا

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
وہ پودا جس کو سرزمین ہند کی زینت بننا تھا وہ خلوص کی مٹی محبت کی گھاس لے کر انگلستان کی آب و ہوا کی دوش پر ولایت چلاگیا ۔ وہ پودا پروان چڑھتا چلاگیا ۔وہ کنول جو دکن کی کیچڑ میں رونما ہوا تھا وہ دن رات میں ایسا کھل اٹھا وہ انگلستان کی آب و ہوا کوعطربیز ایسا کرگیا کہ گلستان کا چپہ چپہ جھوم گیا ۔ کلی کلی مسکراپڑی ۔ ہر غنچہ کھل اٹھا ۔ جو سورج اُفق دکن پر طلوع ہوا وہ اُفق دکن پر ایسے ذوفشانیاں بکھیرنے لگا کہ اس کی روشنی کبھی معدوم نہیں ہوئی ۔ رودادِ موسیٰ نے جس کے قدموں کو غسل دیا وہ پولیس ایکشن کی کشماکش سے نکل کر ساحل ٹیمس کے کنارے جابسا۔ جس سورج کی ظلمتوں کو ہندوستان کے اندھیروں میں روشنیاں پھیلانا تھا وہ رود بارے انگلستان میں ڈوب کر موت کے اندھیروں میں غرب آب ہوگیا ؎
یوں تو دنیا میں سب ہی آتے ہیں مرنے کے لئے
موت اُس کی ہے جس کا زمانہ کرے افسوس
نیرنگی ٔ وقت یوں چولا بدلے گا مجھے یقین نہ تھا ۔ اُس نے انتہائی مخلص مینارۂ خلوص کو ہم سے چھین لیا ۔
خانوادۂ صاحبزادگان سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیت نے بے پناہ خلوص و ہمدردی اور اپنائیت کا ایسا احساس و چراغ جلاکر وہ پرنس محسن علی خان کے نام سے مشہور ہوا اور ہم سے جدا ہوا ۔
ہر وہ حیدرآبادی دوست محب دکن غربت میں رہنے والا ضرورت مند ، بے ضرورت مند ، مشکل میں گرفتار ، تکلیف میں گزارنے والا ، نوکری کا متلاشی ، روزگار کا خواہاں ہندوستانی پرنس سے ملاقات کرتا تو اور مدد کا طلبگار ہوتا تو وہ فوراً آمادۂ پیکار ہوجاتے۔ کوئی عہدہ نہ رکھتے ہوئے ہر عہدہ سے بالا تر ہر عہدہ دار سے واقف تھے اور وقفیت نہ رکھتے ہوئے جان پہچان نکال لیتے تھے ۔ ملکۂ برطانیہ کوئن الزبتھ ‘ کنگ چارلس ‘ پرنسس ڈائنا اور نہ جانے کتنے ہی سربراہانِ حکومت سے اُن کی راست ملاقات تھی۔ وہ مدد چاہنے والوںکی اس طرح مدد کرتے جیسے وہ اُن کے قریبی رشتہ دار ہیں ۔ سیکڑوں طلباء و طالبات کی مدد کی۔ اُن کی بند مٹھی لاکھ کی تھی ۔ کوئی اُن کے در سے خالی نہیں جاتاتھا ۔ اُنہیں دکن اور دکن والوں سے خاص لگاؤتھا۔ وہ دکنی تہذیب کے دلدادہ تھے ۔ ہمیشہ شیروانی سوٹ زیب تن کئے ہوئے رہتے تھے ۔ مطالعہ کے بے حد شوقین تھے ۔ انہوں نے کئی اداروں کی سرپرستی فرمائی ۔ حلقۂ احباب کافی وسیع تھا ۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان ‘ افغانستان اور دیگر ممالک کے ہردلعزیز شخصیت تھے ۔ آپ کے انتقال پر حکومت فلسطین کی طرف سے بینر لگائے گئے ۔ بہت ہی ایماندار آدمی تھے ۔ بین الاقوامی مذاہب کے اتحاد کے حامی تھے ۔ کئی کانفرنس منعقد کئے اور ہمیشہ کہتے تھے ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ‘‘ ۔ انہیں ہندوستان سے بے حد پیار تھا ۔ یہاں کی بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی سے اُن کا دل دُکھتا تھا ۔ انہوں نے نواب زاہد علی خان صاحب کو مدعو کرکے بین الاقوامی پیس ایوارڈ سے نوازا ۔ وہ کونسا سربراہ مملکت تھا جو اُن سے واقف نہ تھا لیکن کسی سے امداد نہیں مانگی ۔ یہی اُن کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا ۔ وہ کسی کے مرہون منت نہیں رہے ۔ بس ہمیشہ خلوص محبت بانٹتے رہے ۔ جب بھی کوئی اُن سے ملتا تو اُن کا مطیع ہوجاتا ۔ وہ ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ اُن کے رہن سہن اور بساؤ ‘ جامہ زیبی سے نوابی دور یاد آجاتا ۔ اتنے نیک سیرت ‘ پاک باز ‘پرخلوص کہ دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں ۔ محفلوں کی جان تھے لیکن اُس ماحول میں رہتے ہوئے کبھی اُن کے قدم اپنے مذہب کے اُصولوں سے نہیں لڑکھڑائے ۔ اُن کی زوجہ محترمہ سوئز لیڈی تھی ۔ محترمہ سوئزرلینڈ کی مرکزی وزیر تھیں ۔ لیکن دردمنت کش دوانہ ہوا ۔ وہ حیدرآباد آئیں تو لیک ویو گیسٹ ہاوز میں اُن کو مہمان رکھا گیا ۔ لیکن وہ ایک رات سے زیادہ نہ ٹھہریں ۔ اپنے سسرالی مکان بمقام پنجہ شاہ صاحبزادہ لائق علی خان کے مکان اپنے شوہر کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ یہاں تک کہ سرکاری گاڑی تک لینا مناسب نہ سمجھا ۔ ایک لڑکا سوئزرلینڈ میں مقیم ہے ۔
اللہ اُن کی بخشش فرمائے ۔ آمین بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔ پرنس محسن علی خان کا چراغ حیات کیا گل ہوا دوستی کا مینار ظلمت کدہ میں بدل گیا ۔ خلوص کا گلستاں مرجھا گیا ۔ پہاڑ کے پھول سوکھ گئے ۔ دوستی کی کلیاں خزاں رسیدہ ہوگئیں ۔ مدد کے دھارے خشک ہوگئے ۔ بین المذہبی اتحاد کا پیکر ہمیشہ کے لئے روٹھ گیا؎
اب اسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر