وہ ہر قدیم عمارت پہ طنز کرتا ہے

,

   

عوام بدحال … مودی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں مصروف
لو جہاد ، گاؤکشی … نفرت کا ایجنڈہ

رشیدالدین
کسی ملک میں قحط کے نتیجہ میں عوام بھوک سے مرنے لگے۔ روٹی اور غذا کے لئے مصیبت کے مارے شاہی محل کے باہر جمع ہوگئے ۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کی بھوک مٹانے روٹی کا انتظام کیا جائے گا ۔ مہارانی نے وزیر سے رعایا کے جمع ہونے کی وجہ دریافت کی ۔ بتایا گیا کہ قحط کا شکار لوگوں کے پاس کھانے کیلئے روٹی میسر نہیں ہے۔ یہ سننا تھا کہ مہارانی نے برجستہ کہا کہ روٹی نہیں ہے تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔ دنیا میں آج بھی ایسے خیالات رکھنے والے حکمرانوں کی کمی نہیں جنہیں عوام کی بھوک کا کوئی احساس نہیں بلکہ وہ اپنی یادگاروں کی تعمیر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل اور عوام کی ضرورتوں سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ کس طرح شہرت حاصل کریں۔ عوام بھلے ہی بھوک ، اخلاص ، غربت ، بیروزگاری اور بیماری کے شکار رہیں لیکن حکمرانوں کو عمارتوں کی تعمیر کی فکر ہے ۔ ہندوستان ان دنوں جن حالات سے گزر رہا ہے، اس میں عوام کی کیا ضرورتیں ہیں اور حکومت کی ترجیحات کیا ہونی چاہئے ، اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ کورونا وباء اور لاک ڈاؤن نے ملک کی معیشت کو درہم برہم کردیا۔ ایک لاکھ سے زائد افراد کورونا کے سبب لقمہ اجل بن گئے ۔ لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوئے جس کے نتیجہ میں کروڑہا خاندان معاشی بحران میں مبتلا ہوگئے۔ ہزاروں صنعتیں بند ہوگئیں اور صنعتی شعبہ بحران میں ہے ۔ ملک مقروض ہوچکا ہے اور خسارہ سے نمٹنے کے بہانے عوامی شعبہ کے اداروں کو کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں فروخت کیا جارہا ہے ۔ حکومت کے پاس ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے بجٹ نہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کسانوں کو پیداوار کی اقل ترین امدادی قیمت کی ادائیگی کے بجائے کارپوریٹ شعبہ کو کسانوں پر مسلط کیا جارہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں کورونا وباء کا خاتمہ ہوگیا ۔ کئی ریاستوں میں صورتحال آج بھی سنگین برقرار ہے۔ ماہرین نے دوسری اور تیسری لہر کے بارے میں انتباہ دیا ہے ۔ موجودہ حالات میں صحت عامہ کا تحفظ اور عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن عوام کی پریشانیوں ، مشکلات اور دکھ درد سے بے پرواہ نریندر مودی حکومت پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ آزادی سے لے کر آج تک پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی ضرورتوں کی تکمیل کرنے والی 93 سالہ قدیم تاریخی عمارت کے بجائے نئی عمارت کی 971 کروڑ خرچ سے تعمیر کے لئے بھومی پوجن کیا گیا ۔ حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے اور ہر موقع پر ایونٹ میں تبدیل کرنے کے ماہر نریندر مودی نے آئندہ نسلوں میں اپنا نام باقی رکھنے کیلئے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا منصوبہ بنایا ۔ 2022 ء میں آزادی کے 75 سال کی تکمیل کے موقع پر عمارت کے افتتاح کی تیاری ہے ، تاکہ پارلیمنٹ کی تاریخ میں مودی کا نام زندہ رہے۔ لوگ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے ملک اور عوام کی بھلائی میں کچھ کارنامہ انجام دیتے ہیں لیکن گزشتہ سات برسوں میں نریندر مودی کا کوئی کام ایسا نہیں جسے کارنامہ کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ نوٹ بندی سے عوام کی معیشت کے زوال کا آغاز ہوا جو عوامی شعبوں کے اداروں کی فروخت کے ذریعہ نقطہ عروج پر پہنچ جائے گا۔ ملک کو عمارتوں کی نہیں بلکہ روزگار اور بنیادی طبی سہولتوں کی ضرورت ہے۔ دہلی میں کورونا عروج پر ہے اور علاج کی کمی کے نتیجہ میں اموات کا سلسلہ جاری ہے لیکن مودی حکومت کی ترجیح مختلف ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت سے زیادہ ملک کو دواخانوں کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی زندگی بچائی جاسکے ۔ محض ایک عمارت پر 971 کروڑ خرچ کرنے کے بجائے بے گھر غریبوں کے لئے مکانات اور اسکول کی عمارتیں تعمیر کی جاسکتی ہیں اور یہی وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ گزشتہ مارچ سے عوام بحران کا شکار ہیں اور سماج کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر لاک ڈاؤن کے مضر اثرات مرتب نہ ہوئے ہوں۔ عوام کی حالت میں سدھار کے لئے ملک کی معیشت کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق مزید ایک سال تک صورتحال میں بہتری کے آثار نہیں ہیں۔ نریندر مودی نے بھومی پوجن کے ذریعہ خالص ہندو مذہبی تقریب میں تبدیل کردیا۔ کرناٹک کے مشہور مٹھ سے پجاریوں کو طلب کیا گیا تھا۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے ساتھ دعائیہ اجتماع رکھا گیا لیکن اصل تقریب خالص ہندو رواج کے مطابق منعقد ہوئی۔ اگر تمام مذاہب کا یکساں احترام ملحوظ ہوتا تو تمام مذاہب کے مذہبی رہنماؤں سے بنیاد کے پتھر رکھائے جاتے۔ ملک کا دوسری بڑا مذہب اسلام ہے لیکن بین مذاہب دعائیہ اجتماع میں مسلم مولوی کو پانچویں نمبر پر رکھا گیا تھا اور چھوٹے مذاہب کو پہلے موقع دیا گیا۔ یہ حکومت کی تنگ نظری نہیں تو اور کیا ہے ۔ دستور ہند کے مطابق سرکاری تقاریب میں مذہبی رسومات کی گنجائش نہیں ہے لیکن ملک اکثریتی طبقہ کے مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ہندوستان کوئی ہندو مملکت نہیں ، یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح پارلیمنٹ صرف اکثریتی طبقہ کا نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ہے۔ پارلیمنٹ کی عمارت بی جے پی یا سنگھ پریوار کا دفتر نہیں کہ سنگ بنیاد کے موقع پر پوجا ارچنا کی جائے ۔ پارلیمنٹ کی عمارت رام مندر نہیں ہے کہ جس کا سنگ بنیاد اشلوکوں کے درمیان کیا جائے ۔ حکومت کا ایجنڈہ چونکہ ہندو راشٹر کا قیام ہے ، لہذا ہر معاملہ میں ہندو مذہبی روایات کا غلبہ ہے ۔ ہر چیز کو مذہبی رنگ دینا حکومت کی پالیسی بن چکی ہے ۔ مودی حکومت نے کورونا کو بھی مذہبی رنگ دیا ۔ لاک ڈاؤن کے دوران کورونا سے نجات کیلئے برقی بند کرنے ، موم بتی جلانے اور گھنٹی بجاتے ہوئے مذہبی رنگ دیا گیا تھا ۔ عمارتوں کی تعمیر سے تاریخ میں نام زندہ نہیں رہتا بلکہ رعایا کی بھلائی کے کام نہ صرف تاریخ بلکہ عوام کے دلوں میں زندہ رکھتے ہیں۔ گاندھی ، نہرو ، مولانا ابوالکلام آزاد ، حوالدار عبدالحمید ، اشفاق اللہ خاں اور بھگت سنگھ نے کوئی عمارت تعمیر نہیں کی بلکہ ملک کی آزادی کیلئے قربانیاں دیں جس کے نتیجہ میں وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ عمارتیں اگر تاج محل اور چارمینار کی طرح ہوں تب بھی تاریخ کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن ایسی عمارتوں کی تعمیر کیلئے اہل دل چاہئے جس میں اپنی محبوبہ اور ملکہ سے محبت کی یادگار کو دنیا بھر کیلئے شاہکار بنادیا ہے۔ یہاں تو مودی نے اپنی گھر والی کو بھی بے گھر اور بے آسرا کردیا ۔ ان سے محبت کی بات یا ان کی یادگار کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ موجودہ پارلیمنٹ انگریزوں کی یادگار ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے عمارت کو مسلم حکمراں سے منسوب کردیا ۔ لہذا مسلمانوں کی نشانی سمجھ کر نریندر مودی مٹانے پر تلے ہیں۔
نریندر مودی کو شہرت کا جنون اس قدر سوار ہے کہ پارلیمنٹ کی بھومی پوجن میں نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو کو مدعو نہیں کیا ۔ حالانکہ وہ راجیہ سبھا کے صدرنشین ہوتے ہیں۔ مودی کو خوف تھا کہ وینکیا نائیڈو کی آمد کی صورت میں پروٹوکول کے حساب سے انہیں ترجیح نہیں مل سکتی ، لہذا خودنمائی کیلئے وینکیا نائیڈو کو تقریب سے دور رکھا گیا ۔ دوسری طرف راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے تقریب سے دوری اختیار کرلی۔ نئے پارلیمنٹ کے لئے عوامی رقومات کے زیاں پر ان کا خاموش احتجاج تھا ۔ ملک میں عوام مسائل کا شکار ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کا نفرت اورفرقہ وارانہ ایجنڈہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں لو جہاد اور گاؤ کشی کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ بعض بی جے پی ریاستوں نے لو جہاد قانون سازی کے ذریعہ 10 سال کی سزا طئے کی ہے۔ لو جہاد سے نمٹنے سے قبل بی جے پی کو پارٹی میں موجود لو جہاد کے برانڈ ایمبسڈرس مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جنہوں نے اشوک سنگھل اور مرلی منوہر جوشی کے گھر میں محبت ہی نہیں بلکہ شادی رچائی ۔ دوسروں پر کارروائی سے قبل بی جے پی کو پہلے اپنے اندر موجود لو جہادیوں کو جیل بھیجنا چاہئے۔ بی جے پی تو کھلے عام تسلیم کرنے تیار نہیں ہے کہ دونوں قائدین نے لو جہاد کیا۔ اس کے مطابق یہ رضامندی کی شادی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی دیگر مذاہب میں شادی ہو تو رضامندی سے اور دوسرے کوئی کریں تو جہاد۔ یہ دوہرا معیار کیوں ؟ ملک کی کئی ہائی کورٹس میں لو جہاد قانون کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے واضح کردیا کہ ہر بالغ مرد اور عورت کو اپنی مرضی کے مطابق رفیق سفر کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ رام مندر کے سنگ بنیاد کے بعد اب قطب مینار کی مسجد نشانہ پر ہے۔ ویسے ملک میں 3000 مساجد پر سنگھ پریوار کی دعویداری ہے۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
جو جھونپڑی سے نکل کر محل تک آیا ہے
وہ ہر قدیم عمارت پہ طنز کرتا ہے