ویاکسن کا سال

   


برطانیہ میں نئی شکل کے ساتھ آنے والا وائرس اب ہندوستان بلکہ ریاست تلنگانہ میں بھی گھس آیا ہے۔ گزشتہ سال کورونا وائرس گرمی کے دنوں میں پہونچا تھا اور وائرس کم خطرناک تھا تو حکومت نے غیر منصوبہ بندی اور عجلت میں لاک ڈاؤن لگایا تھا۔ اب ایسا مسئلہ آیا ہے کہ کورونا کی نئی شکل بعض سائنسدانوں کی نظر میں خطرناک نہیں ہے لیکن سردیوں میں آنے والی یہ نئی شکل کا وائرس خطرناک بھی ہوسکتا ہے لیکن حکومت نے اس خطرناک نئی شکل کے وائرس کو نظرانداز کردیا ہے۔ جب مرکزی حکومت نے ہی نئی شکل کے وائرس کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہے تو عوام کو اس وائرس سے ڈرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کررہے ہیں۔ سال 2020 ء کو کورونا وائرس کا سال قرار دیا گیا تھا۔ اب سال 2021 ء کو ویاکسن کا سال بنادیا جائے گا۔ عوام الناس کو ویاکسن لینے کی ترغیب دی جائے گی۔ بلکہ لازمی قرار دیا جائے گا۔ یہ ویاکسن بھی عوام کی جیب خالی کرنے کے لئے لگائی جائے گی۔ حکومت بہرحال عوام سے پیسے بٹورنے کے لئے ویاکسن کے حصول کو لازمی بنائے گی۔ کئی شرائط اور ضوابط کے ساتھ ویاکسن لازمی قرار دیا جائے گا تویہ ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک کی تقریباً غریب عوام کے لئے ناقابل رسائی ہوجائے گا۔ کورونا ویاکسن سے پہلے ملک میں کئی ایسی روایات موجود ہیں جن کی مدد سے کئی مریضوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ احتیاطی طور پر مریضوں کے اندر قوت مدافعت کے نظام کو بڑھایا جاتا ہے۔ جس ملک میں دیگر امراض کے لئے ادویات کا حصول ایک عام شہری کے لئے مشکل ہوتا ہے تو ویاکسن لینا بھی دشوارکن ہوگا۔ اب حکومت اگر ہر کس و ناکس کو ویاکسن لینے کے لئے زبردستی کرے گی تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت دنیا کے کم و بیش ملکوں نے کورونا ویاکسن کے آرڈر دیئے ہیں۔ حکومت ہند نے بھی برطانیہ کی منظوری آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویاکسن خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس حکومت نے سال 2020 ء میں کورونا کا پتہ چلنے کے بعد سست روی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 30 جنوری 2020 کو ہی کوویڈ کیس کی پہلی رپورٹ مل گئی تھی لیکن حکومت نے کچھ ایکشن نہیں لیا۔ 3 ماہ بعد مارچ میں اچانک چند گھنٹوں کے اندر ہی ملک کے 1.3 بلین عوام پر قومی لاک ڈاؤن مسلط کردیا تھا۔ ریاستوں کو لاک ڈاؤن کے نفاذ کے لئے صرف چار گھنٹے کی مہلت دی گئی تھی۔ نتیجہ میں لاکھوں ورکرس بے روزگار، بے سہارا اور بھوک و پیاس کا شکار ہوگئے تھے۔ اب نئے سال میں بھی کورونا کی نئی شکل کے حوالے سے اچانک کوئی قدم اُٹھایا جاتا ہے تو یہ عوام الناس کے لئے عذاب ہوگا۔ مودی حکومت اپنی نادانیوں اور زیادتیوں کے ذریعہ ملک کے عوام کو نت نئے مسائل سے دوچار کررہی ہے۔ نئے سال میں ویاکسن کے حوالے سے عوام کو کس طریقہ سے پریشان کیا جاسکتا ہے اس پر ماہرین کی عجلت ……… پائی جاتی ہے۔ بہرحال سائنسدانوں نے کورونا کی نئی شکل کے وائرس کے خطرناک نہ ہونے کا بھروسہ دلایا ہے لیکن عوام کو ہی اپنی مدد آپ کرنی ہوگی۔ اس وباء نے صحت عامہ کی اہمیت کو اُجاگر کردیا ہے۔ عوام کو شعوری طور پر بیدار ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہندوستان میں ایسی حکومت کام کررہی ہے جو صحت عامہ کی فکر نہیں رکھتی اور نہ ہی ملک کے دواخانوں میں خاطر خواہ بستر ہیں۔ وینٹی لیٹرس بھی نہیں ہیں۔ آئی سی یو کے بستر کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ جب صحت عامہ کے بارے میں حکومت کی سطح پر اس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ دیکھا گیا ہے تو عوام کو کم از کم اپنی صحت کے بارے میں لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی کا واحد ایجنڈہ صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ ہر ریاست میں وہ نفرت کی سیاست کے ذریعہ اقتدار حاصل کررہی ہے۔ سال 2020 ء کے واقعات کا مشاہدہ کرنے والے ہندوستانی عوام کو سال 2021 ء میں اپنی مدد آپ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
یوروپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی
برطانیہ ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ ایک طرف کورونا وائرس کی نئی شکل اُبھرنے کی خبر ہے تو دوسری طرف یوروپی یونین سے نصف صدی بعد باضابطہ علیحدگی ہوئی ہے۔ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا مستقبل کیا ہوگا یہ آگے دیکھا جائے گا۔ فی الحال وزیراعظم برطانیہ بورس جانسن کے لئے یوروپی یونین سے علیحدگی کئی چیالنجس پیدا کرسکتی ہے۔ تاہم انھوں نے ’’اپنے نئے عالمی برطانیہ‘‘ کی مہم شروع کردی ہے اور سال 2021 ء میں وہ اپنے ملک کے اندر کافی بڑی تبدیلیاں لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس ماہ جنوری میں دورہ ہندوستان بھی ان کے لئے اہم ہے۔ انھوں نے 2019 ء میں 11 بیرونی دورے کئے تھے جن میں 9 دورے تو یوروپی ملکوں کے تھے لیکن سال 2020 ء میں ان کے بیرونی دورے نہیں ہوئے۔ سال نو کے آغاز کے بعد ان کا پہلا دورہ ہندوستان ہوسکتا ہے۔ 26 جنوری 2021 ء کو یوم جمہوریہ پریڈ کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے ان کی شرکت ہند ۔ برطانیہ تعلقات میں استحکام کے علاوہ ایشیاء پسیفک خطہ میں برطانیہ کے تعلقات کو ازسرنو اعلیٰ سطح پر لے جانے کی کوشش ہوگی۔ برطانیہ کو عالمی سطح پر ایک نئی بلندی عطا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بریگزٹ کے بعد کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے برطانیہ کی حکومت کو ایمگریشن میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہوگی۔ برطانیہ نے جب جمعرات کی نصف شب یوروپی یونین سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی تو 47 سالہ طویل تعلقات یکلخت ختم ہوگئے۔ سال 2016 ء کے ریفرنڈم کے بعد سے حکومت برطانیہ نے خاص کر وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ کی مخالفت کرنے والی برطانیہ کی نصف آبادی کو مایوس کردیا ہے۔