ٹاملناڈو میں قومی تعلیمی پالیسی کی مخالفت

   

پیام لے کے بہاروں کا میرے نام اکثر
چمن میں وہ مرے جانے کے بعد آئے ہیں
ٹاملناڈو میں قومی تعلیمی پالیسی کی مخالفت
مرکزی حکومت کی جانب سے حال میں معلنہ قومی تعلیمی پالیسی کی عملی مخالفت کا آغاز ہوچکا ہے ۔ جنوب میں اپنی علاقائی زبان کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس معاملے میں ٹاملناڈو اور کیرالا وغیرہ زیادہ آگے ہیں۔ اب جبکہ حکومت کی جانب سے قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے سہ لسانی فارمولا پیش کیا گیا ہے اور ہندی اور سنسکرت کے فروغ کی گنجائش رکھی گئی ہے تو ٹاملناڈو میں اس کی مخالفت کا آغاز ہوچکا ہے ۔ جنوبی ریاستوں میں علاقائی زبان کے مسئلہ پر حکومتیں اور اپوزیشن جماعتیں سبھی ایک رائے ہوتی ہیں۔ ٹاملناڈو میں بھی اپوزیشن ڈی ایم کے اور برسر اقتدار انا ڈی ایم کے کی جانب سے تین زبانوں سے متعلق مسئلہ پر مرکز سے اختلافات کا آغاز ہوچکا ہے ۔ ٹاملناڈو کے چیف منسٹر پلانی سامی نے آج اعلان کردیا کہ ریاست میں سہ لسانی فارمولے پر عمل نہیں کیا جائیگا اور صرف ٹامل اور انگریزی زبانوں کا جو نظام تعلیم ہے اسی کو برقرار رکھا جائیگا ۔ اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی جائیگی ۔ ٹاملناڈو کا احساس ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ایک بار پھر علاقائی زبانوں کی اہمیت کو گھٹاتے ہوئے ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ویدک کلچر کو رائج کرنے کے ایجنڈہ کے تحت یہ کام کیا جارہا ہے ۔ ٹاملناڈو حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس طرح کے اقدامات وفاقی روایات کے مغائر ہے اور مرکزی حکومت کو اس طرح کے اقدامات سے قبل ریاستوں سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے ۔ جس وقت مرکز نے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا اور موجودہ ڈھانچہ میں کچھ تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا تو یہ اندیشے پیدا ہوگئے تھے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس تعلق سے اختلاف ہوسکتا ہے اور اب یہ اختلاف ہوچکا ہے ۔ جس طرح ٹاملناڈو میں ہندی کو مسلط کرنے کی کوششوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے یہی صورتحال کیرالا میں ہوسکتی ہے ۔ پڈوچیری میں ہوسکتی ہے ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی ہوسکتی ہے ۔ جنوب کی ان ریاستوں میں علاقائی زبان کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ علاقائی زبان پر یہاں کسی طرح کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔
کرناٹک میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن چونکہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اس لئے یہ اختلاف شدت کا نہیں ہوسکتا ۔ تاہم ٹاملناڈو میں یہ اختلاف شدت کے ساتھ عیاں ہوگیا ہے حالانکہ برسر اقتدار انا ڈی ایم کے راست یا بالواسطہ طور پر بی جے پی کے سے اتفاق رکھتی ہے لیکن علاقائی زبان کے مسئلہ پر اس نے اپنی رائے کو واضح کردیا ہے ۔ تعلیمی ڈھانچہ میں بہتری کیلئے تبدیلیاں لانا حکومت کا کام ہے اور حکومتیں اس تعلق سے مناسب فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر ذہن نشین رکھنے کی ضـرورت ہے کہ ریاستوں کو بھی کچھ اختیارات اور اہمیت دی جانی چاہئے ۔ علاقائی کلچر اور جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریاستیں اپنے طور پر پالیسی مدون کرسکتی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے باضابطہ کوئی پالیسی بناتے ہوئے ریاستوں پر مسلط کرنے کی بجائے ریاستوں کیلئے کچھ رہنما خطوط جاری کرنے پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح سے ریاستیں اپنے طور پر تمام رموز کا جائزہ لیتے ہوئے پالیسی مدون کرسکتی ہیں۔ اس پالیسی میں مرکزی حکومت کے معلنہ رہنما خطوط کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے لیکن مرکزی حکومت نے اس بار ایسا نہیں کیا ہے اور راست بلکہ اچانک ہی قومی تعلیمی پالیسی کی تدوین عمل میں لائی اور اس کا اعلان بھی کردیا گیا ۔ اس صورت میں جو اختلاف ہو رہا ہے وہ فطری بات ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
مرکزی حکومت کیلئے اب بھی گنجائش ہے کہ وہ ریاستوں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی بجائے وفاقی طرز حکمرانی کی اہمیت کو اور اس کی اقدار کو سمجھتے ہوئے ریاستوں کو اس معاملے میں اختیارات دے اور اپنے طور پر رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے ریاستی سطح پر پالیسی تیار کرنے کا موقع دیا جائے ۔ اس طرح سے مرکزی حکومت کی برتری بھی رہے گی اور ریاستوںکو اپنے طور پر فیصلے کرنے کی گنجائش بھی حاصل رہے گی ۔ اس سے ایک صحتمند تعلیمی نظام کو فروغ دیا جاسکے گا ۔ علاقائی زبان کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ان کو سرکاری طور پر تسلیم بھی کیا گیا ہے ۔ ایسے میں مرکزی حکومت کو موجودہ صورتحال میں ریاستوں کی رائے حاصل کرتے ہوئے ضرورت کے مطابق نئی معلنہ قومی تعلیمی پالیسی میں کچھ حد تک ضروری ترامیم کیلئے فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔