ٹی آر ایس اور کانگریس کی انتخابی مہم میں شدت، مساوی تعداد میں نشستوں پر کامیابی کی اُمیدیں

,

   

علاقہ واریت، قومی سیاست اور فرقہ پرستوں سے درپردہ ساز باز کے اثرات نمایاں،اکثر حلقوں میں راست مقابلہ، مقامی مسائل بھی اہم موضوع
حیدرآباد۔/3اپریل، ( سیاست نیوز ) ریاست تلنگانہ میں انتخابی ماحول گرما گیا ہے اور انتخابی مہم زور و شورسے جاری ہے۔ تاہم انتخابی نتائج کے تعلق سے مختلف گوشوں میںمختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ایک طرف ریاست میں برسر اقتدار تلنگانہ راشٹرا سمیتی 16 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کررہی ہے اور کانگریس بشمول تمام سیاسی پارٹیوں کو کمزور اور مقابلہ سے دور مانتی ہے لیکن ریاست کے سیاسی مبصرین اور ماہرین و دانشوروں کا کہنا ہے کہ 17کے منجملہ 16 حلقوں پر ٹی آر ایس اور کانگریس ہی میں راست مقابلہ رہے گا اور دونوں ہی پارٹیوں کو مساوی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ چونکہ اسمبلی انتخابات اور پارلیمانی انتخابات میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے نظریات اور ترقی کے علاوہ علاقائیت اور شخصیت کو بھی خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ جبکہ ریاست تلنگانہ میں فرقہ پرست سیاست کا بھلے ہی راست اثر نہ ہو لیکن فرقہ پرستوں سے ساز باز و پردہ کے پیچھے کے دوست تلنگانہ میں پائے جاتے ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں انتخابی مقابلہ بہت سخت دکھائی دے رہا ہے۔ ریاست کے 17 حلقوں میں 8 نشستوں پر کانگریس اور 8 پر ریاست کی برسراقتدار ٹی آر ایس کی کامیابی کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ حلقہ واری سطح پر جائزہ لیتے ہوئے تیار کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق کھمم میں کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان راست مقابلہ ہوگا۔ ٹی آر ایس سے میدان میں موجود ناما ناگیشور راؤ سے کانگریس امیدوار رینوکا چودھری کا راست مقابلہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی کو مبینہ طور پر 50 کروڑ روپئے پیش کرتے ہوئے ٹکٹ حاصل کرنے والے ناگیشور راؤ کو حلقہ کے اراکین اسمبلی کی بھی بھرپور تائید حاصل ہے تاہم کھمم کا تلگودیشم کیڈر کانگریس کے حق میں سخت مہم چلارہا ہے۔ جبکہ پی سرینواس ریڈی کے حامیوں نے بھی رینوکا چودھری کے حق میں تائید کا اعلان کردیا ہے۔ ناگیشورراؤ کی دولت اور رینوکا کو عوامی ہمدردی میں ماحول کانگریس کے حق میں موافق دکھائی دے رہا ہے۔ محبوب آباد حلقہ میں جو ایس ٹی محفوظ حلقہ ہے اس حلقہ میں ٹی آر ایس کا موقف مضبوط ہے۔ اس حلقہ سے کانگریس کے امیدوار بالرام نائیک ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حلقہ سے سیتا اکا کو موقع دیا جاتا تو کانگریس کی کامیابی یقینی ہوتی۔ اس حلقہ میں کیوات کے متعلق عوامی رائے مختلف پائی جاتی ہے۔ ورنگل حلقہ میں ٹی آر ایس کیلئے کوئی مخالفت یا ناراضگی نہیں پائی جاتی۔

کونڈا جوڑے کی جانب سے کانگریس کا کامیاب بنانے کی سخت محنت کے باوجود اس حلقہ میں ٹی آر ایس کا تنظیمی ڈھانچہ کافی مضبوط ہے جو کامیابی کیلئے کافی ہے۔ کریم نگر میں سہ رخی مقابلہ درپیش ہے۔ حالیہ ایم ایل سی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے کانگریس نے اپنی طاقت کو ثابت کردیا۔ جبکہ بی جے پی کے امیدوار کا تعلق سماجی طبقہ منورکاپو سے پایا جاتا ہے۔ کریم نگر اسمبلی حلقہ میں منورکاپو طبقہ کا زبردست اثر پایا جاتا ہے جبکہ یہ نشست ٹی آر ایس کا ایک مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ سارے کریم نگر پارلیمانی حلقہ میں سماجی طبقہ ویلماء کا تناسب اور طاقتور موقف پایا جاتا ہے۔ جو اس لحاظ سے ٹی آر ایس کیلئے کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ چونکہ ٹی آر ایس امیدوار کا تعلق ویلماء طبقہ سے پایا جاتا ہے۔ عادل آباد حلقہ میں کانگریس کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ عادل آباد میں بھلے ہی کانگریس کامیاب نہ ہوئی ہو لیکن پارلیمانی انتخابات میں عادل آباد سے کانگریس کی کامیابی کو یقینی تصور کیا جارہا ہے۔ چونکہ اس حلقہ میں پارٹی سے زیادہ شخصیت کو اہمیت حاصل ہے اور رمیش راتھوڑ کیلئے کافی سازگار ماحول ہے۔ پداپلی حلقہ میں کانگریس امیدوار کے سبب شکست سے دوچار ہوسکتی ہے۔ نظام آباد حلقہ میں سہ رخی مقابلہ درپیش ہے۔ اس حلقہ میں ٹی آر ایس کو مضبوط موقف حاصل ہونے کے باوجود مرکزی سیاست کا اثر پایا جاتا ہے۔ کانگریس کی یہی کوشش ٹی آر ایس سے راست مقابلہ کا دعویٰ نتائج کو تبدیل کرسکتا ہے۔ لیکن اس حلقہ میں بی جے پی طاقتور موقف رکھتی ہے۔ باوجود اس کے حلقہ میں موجود 17 فیصد مسلم رائے دہندوں کی موجودگی کسی امیدوار کی کامیابی میں کلیدی رول ادا کرسکتا ہے۔ ظہیرآباد حلقہ میں مقامی اور غیر مقامی کا بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ دولت مند ترین شخص بی بی پاٹل کا تعلق مہاراشٹرا سے ہے انہیں پیسہ کے بل پر ٹکٹ دیئے جانے کی افواہ گشت کررہی ہے۔جبکہ کانگریس امیدوار کا مقامی اور تعلیم یافتہ ہونا بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہا ہے۔(سلسلہ صفحہ 10 )