حیدرآباد۔سال2014کے عام انتخابات سے قبل اور اس کے بعد ملک میں ایک نعرے بہت زور شور سے لگایاجانے لگا اور وہ نعرہ ’’ہندو خطرے میں ہے‘‘ تھا۔
پچھلے پانچ سال سے مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کا قبضہ ہے ‘ اترپردیش میں2017میں بی جے پی پوری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ائی اور اس کے شعلہ بیان متنازعہ لیڈر یوگی ادتیہ ناتھ کو ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا چیف منسٹر بنایا گیا ‘ اس کے بعد بھی جب کبھی ملک میں چھوٹے یابڑے پیمانے کے الیکشن پیش ائے اس میں بی جے پی کا ایک ہی نعرہ رہا او روہ یہ تھا کہ ’’ ہندو خطرے میں ہے‘‘۔
بی جے پی کے متعلق یہ بات عام ہے کہ وہ ہندوتوا کی سیاست کرتی ہے اور یہ سچ بھی ہے ۔ کیونکہ پچھلے کئی انتخابات کی مہم کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی ہوں یا پھر چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ دونوں نے اپنے دستور ی عہدے کا پاس ولحاظ رکھے بغیرہندووٹ پولرائزیشن پر کام کیاہے۔
5 साल से पूरे देश पर तुम्हारा “क़ब्ज़ा” है, फिर भी “हिंदू”
ख़तरे में है, तो ज़िम्मेदार कौन हुआ….?— Acharya Pramod (@AcharyaPramodk) April 3, 2019
ممتاز ہندو مذہبی پیشواء اچاریہ پرمود کرشنم نے جمعرات کے روز اپنے ایک ٹوئٹ میں بی جے پی حکومت سے استفسار کیا کہ ’’ پچھلے پانچ سال سے ملک پر تمہاراقبضہ ہے ‘ پھر بھی ہندو خطرے میں ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘۔
اچاریہ پرمود کرشنم کا یہ ٹوئٹ تیزی کے ساتھ وائیرل ہورہا ہے ۔ واضح رہے کہ اچاریہ پرمود کرشنم کا شمار نریندر مودی حکومت پر سخت تنقید کرنے والے سادھوؤں میں ہے ‘ جو ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ‘ قومی سالمیت ‘ آپسی بھائی چارہ کوفروغ دینے کے لئے کام کرتے ہیں۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ بی جے پی اور اس کے لیڈر ’’ ہندو خطرے‘‘ میں ہے کا نعرہ لگارہے ہیں۔ ہر الیکشن سے قبل ایسے نعرے مودی حکومت میں عام بات بن گئے ہیں۔
سب سے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم کے باوقار دستور ی عہدے پر فائزہونے کے باوجود وزیراعظم برسرعام ہندو پولرائزیشن کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مہارشٹرا کے واردھا سے اپنی انتخابی مہم کی شروعات کے ساتھ ہی ’’ہندو دہشت گردی‘‘ کے موضوع کو ہو ا دی ۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کو ’’ ہندو دہشت گردی‘‘ کے لفظ متعارف کرنے والی پارٹی قراردیتے ہوئے کہاکہ’’ سمجھوتا ایکسپریس معاملہ میں بھگوا پارٹی کے سبھی لیڈروں کو بری کردیاگیا ۔ مگر کانگریس نے ’ہندو دہشت گردی‘ کا اصطلاح کے ذریعہ ساری دنیا میں ہندوؤں کے وقار کو مجروح کیاہے‘‘۔
وزیراعظم نریندر مودی نے این ائی اے کی خصوصی عدالت کے سمجھوتا ایکسپریس کیس پرفیصلہ سنانے والے جج کی تشویش کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
خیال رہے کہ مذکورہ جج نے اپنے فیصلہ میں بڑے افسوس کے ساتھ کہاتھاکہ’’ ایسے واقعات میں کسی کو سزا نہیں ملتی ہے تو بڑے افسوس کی بات ہے‘ حالانکہ عدالت کے فیصلے ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور اس کیس میں ثبوت کی کمی او رشواہد کے فقدان کی وجہہ سے کیس کے تمام ملزمین کو بری کیاجارہا ہے ‘مگر عدالت سب کچھ جانتے او رسمجھتے ہوئے ثبوت کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں سناتی‘‘۔
پچھلے پانچ سالوں میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے وزراء بشمول چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے اپنے دستور عہدے کے وقار کو بالائے طاق رکھ کر اس طرح کی بیان بازیاں کی ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو شرمسار کرنے والے ہیں۔