پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان’ اسٹینڈ بائی معاہدہ‘ طے

   

موجودہ معاہدہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط، فی الحال ڈیفالٹ کا خطرہ کچھ حد تک ٹل گیا
اسلام آباد: آئی ایم ایف سے پاکستان کو آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی ابتدائی منظوری مل گئی، جس سے ملک میں ڈیفالٹ کا خطرہ کچھ حد تک ٹل گیا ہے۔کافی عرصے سے شدید مالیاتی اور اقتصادی مشکلات کے شکار ملک پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین یہ معاہدہ سٹاف لیول کا ایک انتظامی اتفاق رائے ہے، جس کی مالیت تین بلین ڈالر اور جس کی مدت نو ماہ ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسا اتفاق رائے بھی ہے، جسے ’’اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ یا ایس بی اے بھی کہا جاتا ہے۔اس اتفاق رائے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ ایس بی اے معاہدہ پاکستان کے ساتھ 2019ء میں طے پانے والی مالی وسائل کی فراہمی کی اس توسیع شدہ سہولت (Extended Fund Facility) یا ای ایف ایف کا متبادل ہے، جس کی مدت آج 30 جون جمعے کے روز پوری ہو گئی۔ مزید یہ کہ اس ایس بی اے کا مقصد ای ایف ایف کے تحت کی جانے والی کوششوں کو استحکام دینا ہے۔یہ معاہدہ فی الحال فریقین کے مابین ایک سٹاف لیول معاہدہ ہے، جس کی حتمی منظوری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا انتظامی بورڈ جولائی کے وسط میں دے گا۔۔ آئی ایم ایف نے خاص طور پر ملک میں بجلی کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اس شعبے کے نرخوں میں اس طرح ‘بروقت‘ اصلاحات لانا ہوں گی، جن کی مدد سے کم از کم بجلی کی پیداوار پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت کو بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنا ہو گا، وہ بھی ان حالات میں کہ جب ملک میں افراط زر کی شرح پہلے ہی ریکارڈ حد تک زیادہ ہے اور یہ سال اصولی طور پر پاکستان میں عام انتخابات کا سال بھی ہے۔۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں افراط زر کی شرح میں کمی کے لیے تندہی سے جامع اور مؤثر اقدامات کرے۔ پاکستانی مرکزی بینک آئی ایم ایف کے مطالبات پر پالیسی ریٹ کہلانے والی اپنی مرکزی شرح سود پہلے ہی 22 فیصد کر چکا ہے۔۔ ریاستی انتظام میں کام کرنے والے پاکستانی اداروں کی وجہ سے حکومت کو ہونے والا مالی خسارہ مسلسل بہت زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کمی کے لیے حکومت کو زیادہ بہتر اور سخت گورننس کرنا ہو گی۔۔ آئی ایم ایف کا یہ نیا بیل آؤٹ اگرچہ توقع سے بڑا ہے، تاہم اس معاہدے میں پاکستانی حکومت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اور زیادہ دوطرفہ اور کثیرالفریقی کوششیں کرے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں اور ان رقوم کی عملی ترسیل اب اس لیے متوقع ہے کہ اسلام آباد اور آئی ایم ایف کے مابین ڈیل طے پا گئی ہے۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے بھی، جو پاکستان کو قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، قرضوں میں رول اوورکلیدی اہمیت کا حامل ہو گا۔۔ پاکستان کو اپنے ذمے بین الاقوامی قرضوں کی سروس اور دیگر غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے مجموعی طور پر 22 بلین ڈالر درکار ہیں۔ اسلام آباد کو یہ رقوم مالی سال 2024ء میں درکار ہوں گی، جو کل ہفتہ یکم جولائی سے شروع ہو کر 30 جون 2024ء کو اپنے اختتام کو پہنچے گا۔