پاکستان میں افغان خاتون صحافیوں کوہنوز مشکلات کا سامنا

   

اسلام آباد: افغانستان میں طالبان کی سخت گیر حکومت کی وجہ سے ملک چھوڑ کر پاکستان آنے والے صحافیوں کی مشکلات کم نہیں ہوسکیں۔ خاص طور سے خواتین صحافیوں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ غیر ملکی نشریاتی اداروں سے وابستہ صحافیوں کو زندگی کا خطرہ محسوس ہونے لگا جس کے سبب اکثریت نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد کسی مغربی ملک میں پناہ کی متلاشی ہے۔مشکلات کے شکار صحافیوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ افغانستان میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران جہاں غیر ملکی تعاون سے کئی نشریاتی ادارے بنائے گئے وہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد ملکی اور غیر ملکی نشریاتی اداروں سے وابستہ ہوئی۔ طالبان کی آمد کے بعد ان خواتین صحافیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان پہنچ گئی۔ بعض تو گھر بیٹھ گئیں لیکن چند ایک یہاں سے بھی اپنے اداروں کیلئے کام کررہی ہیں۔ طالبان نے خواتین کیلئے میڈیا کے دروازے بند کردیے انہیں ٹی وی اسکرین پر نہ آنے کی ہدایت کی گئی جبکہ بعض کو براہ راست دھمکیاں ملنی شروع ہوئیں جسکی وجہ سے انہیں جاب اور ملک دونوں چھوڑنا پڑا۔ نجیبہ آریان آٹھ سال تک افغانستان کے ایک نشریاتی ادارے کیلئے رپورٹنگ کررہی تھیں لیکن جب طالبان کی حکومت آئی تو انہیں جاب سمیت ملک بھی چھوڑنا پڑا۔ نجیبہ آریان پشاور کے ایک مقامی اخبار اور ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہیں اور اپنے کام اور مقامی صحافیوں کے تعاون سے مطمئن ہیں۔ وہ انجانی دھمکیوں اورخوف کی وجہ سے کیمرے کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں لیکن جب ڈی ڈبلیو نے ان سے بات کی تو انکا کہنا تھاکہ مشکلات تو جمہوری ادوار میں بھی تھیں لیکن پریس کی آزادی تھی۔