پاکستان میں پھر وہی سانپ سیڑھی کا کھیل

   

ظفر آغا
کبھی کبھی ’نظام‘ کی مرضی جو ہوتی ہے، وہ نہیں چلتی اور حالات کچھ دوسرا ہی موڑ لے لیتے ہیں۔ ہمارے پڑوس پاکستان میں ابھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہ بات عیاں تھی کہ وہاں جو پارلیمانی چناؤ ہوئے ان میں پاکستانی نظام یعنی فوج نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ نواز شریف کسی طرح اقتدار میں آ جائیں۔ لیکن ہوا کچھ اور۔ پاکستانی فوج کے دشمن عمران خان کی ’تحریک انصاف پارٹی‘ (پی ٹی آئی) کو پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ سیٹیں ملیں۔ حد تو یہ ہے کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید عمران خان نے فوج کے نمائندہ نواز شریف کی پارٹی کو شکست دے دی۔ مگر یہ کیونکر ممکن ہوا! ایک طویل داستان ہے جس کا ذکر اب لازمی ہے۔
ہوا یوں کہ کوئی سال ڈیڑھ سال قبل عمران خان کو یہ گمان ہو گیا تھا کہ اب اس کا قد پاکستانی فوجی جنرلوں سے بھی بلند و بالا ہو چکا ہے۔ پاکستان میں کسی لیڈر کا یہ سوچنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ بس پھر جو ہونا تھا سو ہوا۔ دیکھتے دیکھتے عمران خان تو عمران خان، ان کی زوجہ بشریٰ بی بی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئیں۔ ان کی پارٹی کا برا حال ہوا۔ پارٹی کے اعلیٰ لیڈران یا تو پارٹی چھوڑ گئے یا پھر جیل پہنچ گئے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی غیر شرعی قرار دے دی گئی۔لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ ابھی کچھ عرصے قبل تک عمران خان فوج کے چہیتوں میں سے تھے۔ عالم یہ تھا کہ فوج لکھتی تھی اور عمران خان آنکھ بند کر کے دستخط کرتے تھے۔ لیکن جب عمران کو یہ محسوس ہوا کہ اب وہ فوج کو نظر انداز کر سکتے ہیں، وہ عمران یہ بھول گئے کہ پاکستان میں جس لیڈر نے یہ سوچا کہ وہ فوج کے بغیر اقتدار چلا سکتا ہے اس کا برا حشر ہوتا ہے۔ سنہ 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو عوام میں بے حد مقبول ہوئے اور بس انھوں نے بھی فوج کو اپنا ماتحت سمجھ لیا۔ دیکھتے دیکھتے بھٹو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیے گئے۔ اسی طرح بعد میں ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو گولی مار کر ختم کروا دیا گیا۔ اور تو اور ان دنوں فوج کے نور نظر نواز شریف کو فوج کے عتاب سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کر وطن بدری اختیار کرنی پڑی۔
خیر، ایسی کیا بات ہے کہ پاکستان میں چناؤ تو ہوتے ہیں لیکن اقتدار کی کمان فوج کے ہی ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ دراصل قیام پاکستان کے پیچھے جن طاقتوں کا ہاتھ تھا، ان کو شروع سے ہی جمہوری نظام منظور نہیں تھا۔ لیکن وہ کون طاقتیں تھیں اور ان کو جمہوریت کیوں ناپسند تھی؟ دراصل 1920 و 1930 کی دہائی میں جب متحدہ ہندوستان میں جنگ آزادی تیز ہوئی تب ہی کانگریس پارٹی نے یہ واضح کر دیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ ملک کو ایک جدید ہندوستان کا رنگ روپ دے گی۔ ایک جدید ملک بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے زمیندارانہ نظام کی کمر توڑ دی جائے۔ کانگریس نے تو یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ ملک سے زمینداری کا خاتمہ کر دے گی۔
بس اس بات سے مسلم سماج میں بے چینی پھیل گئی۔ وجہ یہ تھی کہ صدیوں سے چلے آ رہے شاہی نظام میں زمیندارانہ نظام کا دور دورہ تھا۔ اس طرح بادشاہ وقت کوئی بھی ہو، اقتدار زمینداروں کے ہی ہاتھوں میں رہتا تھا۔ اس نظام کا قائد مسلم زمینداروں کو رہنا تھا۔ اس لیے کانگریس کی جدید طرز کی معیشت اپنانے کے اعلان سے مسلم زمیندار بے چین ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنہ 1920 و 1930 کی دہائی میں محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے کانگریس کی مخالفت شروع کر دی اور 1940 کی دہائی کے شروعاتی دور میں ہی ملک کے بٹوارے کی مانگ رکھ کر آخر 1947 میں ہندوستان کا بٹوارا کروا پاکستان قائم کر لیا۔ ظاہر تھا کہ پاکستان میں زمینداروں کے مزے رہے اور اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے 1960 کی دہائی میں جنرل ایوب خان نے ٹوٹی پھوٹی جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ تب سے آج تک پاکستان میں اقتدار کی کمان فوج کے ہی ہاتھوں میں رہتی ہے۔ اور اگر کسی نے فوج کی اَن سنی کی تو اس کو بھٹو یا عمران بنا کر دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اقتدار تو فوج کے ہاتھوں میں ہے، اس کا زمینداروں سے کیا لینا دینا! زمینی حقیقت یہ ہے کہ فوج تو زمینداروں کی محافظ ہے۔ اگر کبھی زمینداروں پر خطرہ منڈلاتا ہے تو بس فوج تختہ پلٹ کر کسی اور مہرے کو اقتدار سونپ دیتی ہے۔
لیکن وقت تو وقت ہوتا ہے۔ وقت ہر لمحے بدلتا رہتا ہے اور ایک وقت یہ بھی آتا ہے کہ وہ پرانے نظام کو الٹ دیتا ہے۔ لاکھ اقتدار فوج کے پاس ہو، لیکن پاکستانی فوجی نظام کو عوام کو دھوکا دینے کے لیے یہ ڈھونگ رچنا پڑتا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے اور چناؤ کروانے پڑتے ہیں۔ لیکن جب چناؤ کے بعد کوئی اقتدار میں آ جاتا ہے تو وہ اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے جو زمیندارانہ نظام کے خلاف کچھ قدم اٹھاتا ہے، تو بس پھر فوج ان کو بھٹو یا عمران بنا دیتی ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا ہوگا؟ کیونکہ عمران خان کی پارٹی کو تمام پارٹیوں سے سبقت حاصل ہے! پاکستان میں اب وہی ہوگا جو ہر تاناشاہی دور میں ہوتا ہے۔ یعنی فوج کسی بھی شکل میں عمران کو اقتدار حاصل نہیں کرنے دے گی۔ نواز شریف نے بھٹو کی پارٹی سے اتحادی گورنمنٹ بنانے کی اپیل کی ہے۔ جلد ہی یہ بھی ہو جائے گا۔ اگر ضرورت پڑی تو فوج عمران کی بھی پارٹی توڑ دے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ عوام پر فوج کا قہر ٹوٹے۔ الغرض پاکستان اس وقت اسی سانپ سیڑھی کے کھیل میں پھنسا ہوا ہے جس میں وہ دہائیوں سے پھنسا چلا آیا ہے۔