پاکستان پھر مارشل لا کی راہ پرگامزن

   

ظفر آغا
سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جو ہوا وہ متوقع تھا۔ پاکستانی سیاست میں ہر وہ عوامی نمائندہ جس کا قد فوج کے لئے خطرہ بن جائے اس کو یا تو موت کا یا پھر جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محمد علی جناح کے بعد وہاں کے وزیر اعظم لیاقت علی ایک عوامی تقریب میں گولی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں انتہائی مقبول ہوئے تو ان پر کرپشن کا الزام لگا اور سن 1979 میں جنرل ضیاء الحق نے ان کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ سن 1990 کی دہائی میں بھٹو کی بیٹی اور پاکستان کی مقبول لیڈر بے نظیر کو ایک عوامی جلسے سے نکلتے وقت گولی مار دی گئی۔ پھر نواز شریف کو دو بار ملک چھوڑ کر اپنی جان کی امان کے لئے جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ نواز شریف اب بھی لندن میں مقیم ہیں۔ اب عمران خان اور فوج میں ٹھن گئی ہے۔ پہلے تو عمران کے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور اب چند دن پہلے ان کے لانگ مارچ کے دوران ان کو گولی مار دی گئی اور وہ اب بھی استپال میں زیر علاج ہیں۔ الغرض جس عوامی لیڈر نے فوج کے خلاف منہ کھولا یا فوج کی مرضی کے خلاف کام کیا اس کاحشر برا ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں عمران خان کو جان کا نقصان ہوگا یا وہ بھی نواز شریف کی طرح جلا وطنی اختیار کریں گے ! اس سوال کا جواب تو کچھ عرصے کے بعد پاکستانی حالات دے ہی دیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ فی الحال عمران اور فوج میں ٹھن گئی ہے۔ عمران اب جس حد تک کھل کر فوج کے خلاف سیاست کر رہے ہیں اس میں وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اگر ہٹے تو ان کی سیاست ہی زمین دوز ہو جائے گی۔ اسی طرح اب اگر فوج نے عمران کو کھلی چھوٹ دے دی تو پاکستانی فوج کی سیاست خطرے میں آ جائے گی۔ اس لئے یہ طے ہے کہ فوج عمران پر شکنجہ کسنے پر مجبور ہوگی۔ یعنی عمران اور فوج کے بیچ جھگڑا بڑھنا اب طے ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں پاکستان میں اسٹریٹ سیاست یعنی فوج کے خلاف دھرنے و جلوس کا زور رہے گا۔ چنانچہ پاکستانی سیاست مستحکم نہیں رہے گی اور ملک میں معاشی بحران بھی بڑھ جائے گا۔ یعنی پاکستان کے اب برے دن شروع ہو گئے ہیں۔
کچھ تو یہ ہے کہ محمد علی جناح کا پاکستان ان کی وفات کے بعد سے آئے دن کسی نا کسی قسم کے بحران کا شکار رہتا ہے۔ کبھی فوج اور سیاستدانوں کے بیچ رسہ کشی تو کبھی ملک مالی کنگالی کا شکار۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو ایک ساتھ غلامی سے نجات ملی تھی۔ ہندوستان تمام پریشانیوں کا شکار رہنے کے بعد اب دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ملک کے تمام ادارے مستحکم ہیں اور جمہوریت کی جڑیں بے حد مضبوط ہیں۔ اب ہندوستان عالمی امور میں ایک بڑی آواز ہے۔ اس کے برخلاف 75 برسوں کی آزادی کے بعد بھی پاکستان میں سیاسی استحکام کا فقدان ہے اور وہاں معاشی ترقی کے آثار بھی نظر نہیں آتے دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی طرح وہاں نہ تو جمہوری جڑیں پنپ رہی ہیں ۔ پاکستانی نظام پوری طرح فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے ، جو کسی جمہوری قائد کو کامیاب نہیں ہونے دیتی ہے۔
پاکستان میں جمہوری لیڈران اور فوج کے درمیان جو رسہ کشی کی روایت رہی ہے وہی رستہ کشی اب عمران اور فوج کے درمیان چل رہی ہے ۔ عمران کو گولی لگنے کے بعد فوج اور عمران کے بیچ موجود کھائی بڑھتی جائے گی۔ پاکستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں عمران کے علاوہ کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے کہ جو ان کا نعم البدل ثابت ہو سکے۔ بھٹو کا دور ختم ہوا۔ بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری اور بیٹے بلاول بھٹو کی کوئی عوامی ساکھ نہیں بچی ہے۔ نواز شریف لندن میں پڑے ہیں۔ ان کے بھائی شہباز شریف کو پاکستان کیا پنجاب میں بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ ادھر، عمران کی مقبولیت عوام میں بڑھتی جا رہی ہے۔ فوج عمران کو لیڈر تسلیم کرے اور چند ماہ میں انتخاب کروا کر اقتدار عمران کے حوالہ کر دے یہ اس کے لئے ممکن نہیں ہے۔ عمران اور فوج کے بیچ جس طرح کھائی پیدا ہو چکی ہے اس کے بعد فوج پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ ان حالات میں جلد ہی پاکستان کی سڑکوں پر فوج کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی اور شہباز شریف حد سے زیادہ غیر مقبول ہو جائیں گے۔ ان حالات میں امن و امان بحال کرنے کے لئے فوج کے پاس مارشل لا نافذ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ لب و لباب یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد جس طرح جنرل ضیاء￿ الحق نے مارشل لا لگا کر ملک کو فوج کے حوالہ کر دیا تھا اسی طرح اندیشہ ہے کہ جنرل باجوہ کو بھی پاکستان میں مارشل لا لاگو کرنا پڑ سکتا ہے!