پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کا قرض

   

اپنے بازو پہ سدا رکھ کے بھروسہ کامل
تو ہی تقدیر کا تدبیر کا حاصل ہوجا
رقمی اور معاشی بحران کا شکارپاکستان کیلئے صورتحال ہرگذرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے ۔ پاکستان کے جو داخلی حالات ہیں وہ انتہائی نامساعد ہوئے ہیں۔ عوام کیلئے روز مرہ کی ضروریات کی تکیل بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے ۔ حکومت اس صورتحال میںکچھ بھی کرنے کے موقف میںدکھائی نہیں دیتی ۔ مہنگائی اپنی حدوںکو چھو رہی ہے ۔ عوام آٹے اور دال کے حصول کیلئے سخت جدوجہد کرتے نظر آ رہے ہیں۔ فیول کی قیمتیں الگ سے بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ قیمتوں پر کنٹرول کے معاملے یں حکومت بے بس نظر آتی ہے ۔ عوام کو حالات اور مہنگائی کی مار سہنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ پاکستان کیلئے کہیں سے بھی قرض کا حصول لازمی ہویا ہے ۔ چاہے اس کیلئے کچھ بھی شرائط عائد کردی جائیں۔ عوام پر چاہے کتنا ہی بوجھ عائد ہوجائے ۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے قرض ضروری ہوگیا ہے ۔ کئی عالمی ادارے ایسے ہیں جو پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے اسے قرض فراہم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کچھ ادارے ار تیارر ہیں بھی تو ان پر عالمی سطح پر دباو ہے کہ وہ ایسا کرنے سے گریز کریں۔ اس صورتحال میں عالمی مالیاتی فنڈ پاکستان کو قرض فراہم کرنے کے معاملے میںآگے آیا ہے ۔ اس نے تاہم جو شرائط عائد کی ہیں وہ پاکستان کیلئے اور بھی مشکل کہی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی اس کی وجہ سے اور بھی بڑھ سکتی ہے ۔ عوام پر ٹیکس کا بوجھ الگ سے بڑھ جائے گا ۔ ساری صورتحال حالات کو بہتر بنانے کی بجائے مزید ابتر بنانے کا باعث بھی ہوسکتی ہے ۔ اب پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے اس کیلئے آگے کا راستہ انتہائی مشکل ہی نظر آرہا ہے اور پاکستان پر اس راستے پر آگے بڑھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نظر نہیں آتا ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے عہدیداروں کے ساتھ پاکستانی حکام کی نو دور کی بات چیت ہوئی ہے جس کے بعد آئی ایم ایف کا وفد پاکستان سے واپس بھی ہوچکا ہے تاہم اب بھی قرض کی فراہمی کو قطعیت نہیںدی جاسکی ہے ۔ حالانکہ اس سمت میں پیشرفت ضرور ہوئی ہے لیکن اس کو اب بھی قطعیت دیا جانا باقی ہے ۔ پاکستان بڑی بے چینی سے اس قرض کا منتظر ہے تاکہ ملک اور معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکے ۔
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ابتداء میںکہہ دیا تھا کہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ یہ فیصلے بہت پہلے سے کئے جانے چاہئے تھے تاکہ حالات کو اس قدر ابتر ہونے سے روکا جاسکے ۔ جہاں تک مشکل فیصلوںکی بات ہے تو سب سے مشکل فیصلہ پاکستانی انتظامیہ اور حکمرانی میںنظم بحال کرنے سے متعلق ہوسکتا ہے ۔ ڈسیپلن رائج کرنے کا فیصلہ بھی مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ حکمرانی ہو یا انتظامیہ ہو وہاں نظم اور ڈسیپلن کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے ۔ جو بھی حکومتیں وہاں یکے بعد دیگر قائم ہوتی رہیں سبھی نے اڈھاک بنیادوںپر فیصلے کئے ہیں۔ کوئی جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی وہاں دکھائی نہیں دی ہے ۔ صرف کام چلاو انداز اختیار کیا گیا ہے ۔ ایسے فیصلے کئے گئے ہیں جو کسی بھی حکومت میں نہیں کئے جانے چاہئے تھے ۔ کرپشن کا عروج بھی انتہاء پر ہے ۔ کرپشن کو روکنے کیلئے حکومتوں نے کوئی اقدامات نہیں کئے تھے ۔ نتیجہ یہی ہوا کہ پاکستان کی دولت بیرونی ملکوںکو منتقل ہوتی رہی ۔ حکمران دولتمند سے دولتمند ترین ہوتے گئے اور اس کا سارا بوجھ پاکستان کے عوام پر منتقل کردیا گیا ۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت بھی انتہائی غربت و افلاس کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔ کوئی صوبہ ایسا نہیں ہے جہاں معیشت کو مستحکم کہا جاسکے ۔ جہاں عوام کو بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہو یا پھر وہاں بجلی اور دیگر سہولیات حسب ضرورت دستیاب ہو۔
حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات میں قرض کی خاطر کڑوا گھونٹ بھی پینے کو تیار ہے ۔ وہ سارا بوجھ بھی عوام ہی پر عائد ہوگا ۔ ممکنہ حد تک راحت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ۔ فی الحال قرض ملنے کے امکانات ضرور بڑھے ہیںلیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کو ڈسیپلن اور نظم بحال کرنے اور رشوت کا خاتمہ کرنے پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کے نتیجہ میں بین الااقوامی مالیاتی فنڈ کے قرض کے بعد جو بوجھ عوام پر عائد ہوگا اسے کم سے کم کیا جاسکے ۔ ممکنہ حد تک بنیادی ضروریات کی تکمیل کو یقینی بنایا جاسکے ۔ عوام کو اس حد تک نہ نچوڑا جائے کہ ان میں کوئی جان ہی باقی نہ رہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو قرض ملنے کے باوجود پاکستان کا وجود خطرہ میں آجائیگا ۔
اڈانی معاملہ پر جوابدہی سے گریز
ہندوستان میں اڈانی معاملہ ان دنوں سرخیوں میں ہے ۔ اڈانی کے شئیرس کی قیمتوں میں جو بھاری گراوٹ آئی ہے اس نے ایل آئی سی اور ایس بی آئی ایسے اداروں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ اڈانی گروپ کو ان دونوں اداروں سے ہزاروں کروڑ روپئے کا قرض دیا گیا ہے اور اب اس گروپ کے شئیرس کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے ان دونوں اداروں کی مالی حالت انتہائی ابتر اور مشکل ترین ہوسکتی ہے ۔ ایل آئی سی ہو یا پھر ایس بی آئی ہو ان میں بھی عوام ہی کا پیسہ ہے اور اسی پیسے کی سبھی کو فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ جہاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس پر حکومت سے جواب طلب کیا جا رہا ہے وہیں ملک کی سپریم کورٹ نے بھی کروڑ ہا روپئے کے نقصانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے اس معاملہ پر حکومت کسی طرح کی جوابدہی سے گریز کر رہی ہے ۔ حکومت سے اڈانی گروپ کے سربراہ گوتم اڈانی کی قربت سبھی پر عیاں ہے ۔ حکومت نے ملک میں کئی نفع بخش ادارے بھی اڈانی گروپ کے سپرد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی ہے ۔ اب جبکہ اڈانی گروپ کے تعلق سے ہنڈن برگ گروپ کے انکشافات کے بعد اس کی دولت میں بھاری گراوٹ آئی ہے تو حکومت کو عوام کو جو تشویش لاحق ہوئی ہے اس کا جواب دینا چاہئے ۔ عوام کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات ہیں اور جو اندیشے لاحق ہیں ان کو دور کرنے کیلئے حکومت کو آگے آنا چاہئے لیکن حکومت اس ذمہ داری سے فرار اختیار کررہی ہے ۔ حکومت کو اس پر اطمینان بخش جواب دینا چاہئے ۔