پاکستان کی ’’خود سے جنگ‘‘

   

برکھا دت
پاکستان میں سیاسی حالات دن بہ دن عجیب و غریب صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں اور یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستانی سیاست کرکٹ سے زیادہ دلکش ہوگئی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ T-20 ورلڈ کپ میں پاکستان کو زمبابوے کے خلاف آخری گیند پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس میچ سے کہیں زیادہ سنسنی خیزی پاکستانی سیاست میں دیکھی جارہی ہے اور اس دلچسپ صورتحال کیلئے پاکستانی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کے سربراہ بھی ذمہ دار ہیں۔ جہاں تک آئی ایس آئی کا سوال ہے، پاکستانی سیاست پر ہمیشہ سے ہی اس کا گہرا اثر رہا ہے۔ زمبابوے کے خلاف پاکستان کی سنسنی خیز انداز میں ناکامی پر دنیا حیران رہ گئی۔ اس طرح پاکستانی سیاست داں اور عوام اس وقت حیران رہ گئے جب اچانک آئی ایس آئی سربراہ منظر عام پر آتے ہیں۔ اور کچھ یوں اعتراف کرتے ہیں ’’میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سارے لوگ مجھے اپنے بیچ میں دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں۔ آئی ایس آئی سربراہ کا اس طرح منظر عام پر آنا پاکستانی سیاسی ہلچل کی شدت کو ظاہر کرتا ہے اور ہاں ہمارے لئے یہاں ہندوستان میں آئی ایس آئی ہمارے قومی مفادات کی بہت بڑی دشمن اور ہندوستان کے خلاف پاکستان کی گہری ریاستی پالیسی کی آلہ کار ہے، ایک ایسی پالیسی جو ہندوستان کے قومی مفادات کے سخت خلاف ہے۔ آئی ایس آئی نے ہمیشہ ہندوستان کی تباہی کے منصوبے بنائے اور ریاست پاکستان کے ہند مخالف منصوبوں و سازشوں کو عملی جامع پہنانے میں سرفہرست رہی۔ ممبئی میں 26/11 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہماری حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ آئی ایس آئی سربراہ ہندوستان آئے اور دہشت گردانہ کارروائی کے ذمہ دار عناصر کے بارے میں معلومات شیئر کریں۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان اُس وقت کے آئی ایس آئی باس کو ہندوستان بھیجنے سے متعلق اپنے عہد کی پاسداری نہیں کی اور اپنے وعدہ سے عملاً انحراف کیا۔ اس وقت لیفٹننٹ جنرل شجاعت پاشاہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور حکومت پاکستان انہیں ہندوستان کے مطالبہ پر دہلی بھیجنے والی تھی لیکن آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ ندیم انجم کی بات ہی کچھ اور ہے۔ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک طرح سے فوج بالخصوص آئی ایس آئی کو للکارتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ جو ادارے عوام کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہوں گے، ان کا نقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کے اہم رہنما نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ وہ فوجی قیادت کے بارے میں کوئی تحفظات ذہنی نہیں رکھتے، اس کا احترام کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جو ادارے عوام کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہوں گے، ان کا نقصان ہوگا۔ خود عمران خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور اسٹابلشمنٹ کے درمیان اختلافات پیدا کرنے اور لڑائی کروانے کی سازشیں کی جارہی ہیں، اس سلسلے میں عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف اور پی پی پی کے آصف علی زرداری کے نام لئے ہیں۔ عمران خان کے مطابق ماضی میں ایک سیاست داں نے صرف اور صرف اقتدار کیلئے پاکستانی فوج کو مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے خلاف کھڑا کیا جس کے نتیجہ میں ملک تقسیم ہوگیا۔ موجودہ حالات میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ملک کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف فوج کو کھڑا کرنے کی سازش رچ رہے ہیں۔ عمران خان کی عوامی تائید میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب صحافی ارشد شریف پر گولیاں چلائے جانے کا پراسرار واقعہ پیش آیا۔ ان کے خلاف ملک سے غداری اور بغاوت کے الزامات عائد کئے گئے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ایک بااعتماد ساتھی و قریبی مددگار کا انٹرویو لیا تھا۔ اس قسم کے واقعات سے عمران خاں کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ پاکستانی اُمور کی ایک رپورٹر کی حیثیت سے سیاست دانوں اور پاکستانی فوجی جرنیلوں کے درمیان اس قسم کے اختلافات بلکہ تنازعات میں نے اس واقعہ کے بعد دیکھے تھے جب امریکہ نے 2011ء میں پاکستان کے ایبٹ آباد علاقہ میں القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی خفیہ قیام گاہ کا نہ صرف پتہ چلایا بلکہ خصوصی آپریشن میں ہلاک کرکے ان کی نعش بھی اپنے ساتھ لے کر چلتے بنے۔ ایبٹ آباد ایک فوجی علاقہ سمجھا جاتاہے اور پاکستانی فوج کی ناک کے نیچے امریکی خصوصی فورسیس نے وہ کارروائی کی تھی۔ اس وقت پاکستانی فوج کا امیج بہت متاثر ہوا، نتیجہ میں اس نے اپنے جارحانہ موقف کو مدافعتی موقف میں تبدیل کرلیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خوب کہا تھا : آئی ایس آئی، ریاست میں ایک ریاست ہے لیکن فوج کے خلاف سیاست دانوں کا جارحانہ موقف مختصر وقت تک ہی برقرار رہا۔ پھر آگے بڑھئے! نواز شریف کی طرف۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے خودمختاری کی بات کی تھی کہ یقیناً وزیراعظم باس ہوتا ہے، فوجی سربراہ نہیں۔ نواز شریف نے 2013ء میں اپنی پارٹی کی تاریخی کامیابی کے بعد لاہور کے مضافات میں واقع عالیشان قیام گاہ میں مجھ سے گفتگو میں یہ بات کہی تھی۔ سال 2016ء میں جب نواز شریف نے لیفٹننٹ جنرل قمر جاوید باجوا کو فوجی سربراہ مقرر کیا، اس وقت انہیں امید تھی کہ فوج اور ان کی حکومت کے درمیان تعلقات خوشگوار رہیں گے اور انہیں اس طرح کے تلخ تجربات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس طرح سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے ساتھ انہیں کرنا پڑا تھا۔ پرویز مشرف نے انہیں جلاوطنی پر مجبور کیا لیکن ملک میں ایسے حالات بنے کہ تاریخ پھر دہرائی گئی۔ آج نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں لیکن پارٹی کے سرپرست اعلیٰ میاں نواز شریف ہنوز لندن سے واپس نہیں آسکے۔ ایک طویل عرصہ تک جیل میں رہنے کے بعد نواز شریف لندن منتقل ہوئے اور وہیں مقیم ہوگئے۔ عمران خان حکومت میں نواز شریف کو انتہائی تلخ تجربات سے گذرنا پڑا اور دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی گئیں۔ انہیں کلثوم نواز سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ وہ بستر مرگ پر تھیں۔ نواز شریف نے عمران خان حکومت کے خلاف یہ الزام عائد کیا تھااور کہا تھا کہ انہیں ان کی بیوی کی شدید بیماری میں بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، آخری لمحات میں بھی ان کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا حالانکہ انہوں نے جیل وارڈن سے ایک طرح سے بھیک مانگی تھی کہ وہ انہیں اُن کی دَم توڑتی اہلیہ سے بات کروائیں۔
عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم اپنی میعاد کے دوران فوج کے خلاف ایک بار بھی منہ نہیں کھولا۔ سال 2019ء میں صحافیوں کے ایک گروپ کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی گئی، جس میں مَیں بھی شامل تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کرتارپور صاحب راہداری کا افتتاح ہورہا تھا۔ عمران خان جن کے ہندوستان میں بہت سارے دوست ہیں، خاص طور پر وہ اپنے کرکٹ کیریئر اور بحیثیت اپوزیشن قائد کافی شہرت رکھتے ہیں لیکن جب ہمیں ان کی سرکاری قیام گاہ پر ان سے ملاقات کیلئے مدعو کیا گیا، وہ بہت زیادہ محتاط اور چوکس تھے۔ وہ اس طرح نہیں تھے جیسا کہ ہم سب ان کے بارے میں جانتے تھے۔ ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ ہم میں کوئی انہیں جانتا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ عہدہ کا پروٹوکول رہا ہو لیکن وہ بہت زیادہ خاموش اور مایوس دکھائی دے رہے تھے۔ ان پر ایسی گھبراہٹ تھی جیسے وہ بار بار کسی کے اشاروں کا انتظار کررہے ہوں۔ آج وہی سیاست داں اپنے ملک میں سیاسی مباحث کے اصول و قواعد طئے کررہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جبکہ عہدۂ وزارت ِ عظمیٰ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہو اور اب امکانی طور پر انتخابی سیاست سے باہر ہوکر ۔ لیکن اب بھی پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے واالے تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو فوج کے چند گوشوں کی تائید حاصل ہے تب ہی تو وہ اپنے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ چاہے وہ لانگ مارچ کے نام پر آگے بڑھنا ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کہ پاکستان میں وہ سیاست داں سڑکوں پر بہت زیادہ مقبول ہوتا ہے جو فوجی جرنیلوں سے مقابلہ پر اتر آتا یا آتی ہے۔ لیکن وہ لمحہ ان کے خاتمہ کے آغاز کی علامت بھی ہوتا ہے۔ کیا عمران خان کا حشر بھی اس مضمون کے اختتامی جملہ کی طرح ہوسکتا ہے۔